عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق


عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق

فاتحِ مرزائیت مولانا شاہ احمدنورانی﷫ کا تاریخی انٹرویو

انٹرویو نگار: ڈاکٹر عابد نظامی

مولانا شاہ احمد نورانی ایک جیّد عالم دین اور بے لوث سیاست دان تھے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانے میں آپ کا کلیدی کردار رہا۔ آپ نے ورلڈ اسلامک مشن کے تحت دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا وسیع نیٹ ورک قائم کیا۔ اسلام اور پاکستان کے لیے آپ کی خدمات کادائرہ بہت وسیع ہے۔ آپ جمعیت علمائے پاکستان اور متحدہ مجلس عمل پاکستان کے سربراہ رہے۔ سینکڑوں غیر مسلم آپ کے دستِ اقدس پر تائب ہو کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے۔

پیش نظر انٹرویو ڈاکٹرعابد نظامی نے لیا جو کہ پہلی مرتبہ ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور میں شائع ہوا، اور پھر سہ ماہی رسالہ انوارِ رضا، جوہرآباد کے افکار نورانی نمبر میں شائع ہوا، ملاحظہ کیجیے؛

مولانا شاہ احمد نورانی بیان کرتے ہیں:

اس سال (۱۹۷۴ء)اپریل میں، میں ورلڈ اسلامک مشن کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گیا۔ ان دنوں مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ ورلڈ اسلامک مشن کانفرنس کی وجہ سے میں اس وقت مکہ معظمہ نہیں جاسکا۔ لندن سے فارغ ہو کر مکہ معظمہ حاضرہوا۔ حاضری کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں سے رابطہ عالم اسلامی کی وہ قرارداد حاصل کروں جو انھوں نے قادیانیوں کے بارے میں متفقہ طور پر منظور کی تھی۔

۲۶مئی کو یہ قرارداد لے کر پاکستان پہنچا تو قادیانیوں کا مسئلہ شروع ہوا۔ ہم نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد کی روشنی میں قومی اسمبلی کے لیے قرارداد مرتب کی جس میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا مشورہ شامل تھا۔ یہی قرارداد ہم نے ۳۰ ؍جون کو اسمبلی میں پیش کی جس پر ۳۷ ا رکان کے دستخط تھے۔

دوسرا کام اسمبلی میں ہم نے یہ کیا کہ قادیانیت سے متعلقہ جس قدر لٹریچر بھی دستیاب ہو سکا وہ ہم نے اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کیا، اس کے علاوہ ہم نے ممبروں سے ذاتی رابطے بھی قائم کیے اور ختم نبوت کے مسئلے پر انھیں آگاہ کیا۔ جن لوگوں کے بارے میں ہمیں یقین تھا کہ وہ قادیانی لابی سے متاثر ہیں یا ربوہ کے زیراثر ہیں ان سے ہم نے رابطہ قائم نہیں کیا۔ کوشش یہی کی کہ جن کا تعلق مرزائیت سے نہیں ہے ان کو ختم نبوت کی اہمیت سمجھا دی جائے ۔ قادیانی بھی اس دوران میں اپنا کام کرتے رہے اورمسلمان ممبروں کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرتے رہے ۔ چناں چہ ایک رکن اسمبلی نے مجھ سے کہا کہ مرزا ناصرکہتا ہے کہ جب کوئی مسلمان فنا فی الرسول کے جذبے سے سرشار ہو کر مقام صدیقیت پر فائز ہو جاتا ہے تو اس کے لیے نبوت کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔ میں نے یہ بات سن کر اس ممبر سے کہا کہ مرزا ناصر کا یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ جب مسلمان مسلسل عبادت سے فنا فی اللہ کا درجہ حاصل کرلے تو اس کے لیے اُلوہیت کی کھڑکی کھل جاتی ہے، یہ جواب اس کی سمجھ میں آگیا۔

)ان مردان کار کے نام جنھوں نے اسمبلی میں نورانی صاحب سے تعاون کیا) علامہ عبدالمصطفیٰ الازھری، مولانا محمد ذاکر(جامعہ محمدیہ، جھنگ)، مولانا محمد علی، پروفیسر غفوراحمد، مفتی محمود، سردار شیر باز خان مزاری، مخدوم نور محمد ہاشمی اور صاحب زادہ احمد رضا قصوری

مولانا غلام غوث ہزاروی اور ان کے ساتھی مولانا عبدالحکیم نے ۳۰؍ جون والی قرارداد پر دستخط نہیں کیے۔ میں سوچنے لگا آخریہ کیسے لوگ ہیں جو مذہبی رہنما بنتے ہوئے بھی دین کے ایسے اہم اور بنیادی مسئلہ پر علماء سے اتفاق نہیں کرتے اور مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے علماء تقریباً ہر دَور میں موجود رہے ہیں۔

دستوری ترمیم پر اطمینان

خواجہ عابد نظامی: کیاآپ اسمبلی کی قرارداد سے پوری طرح مطمئن ہیں؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ حکومت اس قرارداد پر نیک نیتی سے عمل کرے گی؟

نورانی میاں: قراراداد سے ہم متفق ہیں اور متفق کیوں نہ ہوں اسے مرتب ہی ہم نے کیا تھا۔ رہی یہ بات کہ حکومت اس پر عمل کرے گی تو میرا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں کرے گی۔ واقعات بتا رہے ہیں کہ مرزائی کلیدی اسامیوں پر برقرار ہیں۔ ربوہ کو تحصیل ڈکلیئر نہیں کیا گیا حتی کہ ان علما کو ابھی تک رِہا نہیں کیا گیا جن کی رِہائی کا حکومت نے وعدہ کیا تھا۔ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ حکمران اپنے دستور کی دھجیاں خود بکھیر رہے ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، بات بڑھ جائے گی۔

دستوری ترمیم پر عمل

خواجہ عابد نظامی: آخر ان واقعات پر عمل کرانے کے لیے آپ کوئی قدم بھی اٹھائیں گے یا نہیں؟

نورانی میاں: پھر وہی بات، ملک گیر پیمانے پر جدوجہد صرف آئین میں ترمیم کے لیے ہی کی جاتی ہے ، وہ جدوجہد ہو چکی۔ اب مزید کسی تحریک کی ضرورت نہیں۔ حکومت نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دے دیا ہے، ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے اور مرزائیوں کو کلیدی اسامیوں سے ہٹانے کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ اب مسئلہ آئینی نہیں بل کہ انتظامی ہے، اس کے لیے احتجاج ہونا چاہیے۔ ہم اسمبلی کے اندر احتجاج کریں گے، آپ اسمبلی سے باہر پورے ملک میں احتجاج کیجیے۔ جلسوں میں احتجاجی قراردادیں منظور کروا کر حکومت کو بھیجیں، حکومت کو آج نہیں تو کل انتظامی سطح پر ان مسائل کو حل کرنا پڑے گا۔

قادیانی مسئلے میں ہم اللہ کے فضل سے کامیاب رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد سے فیصلہ آئین کا حصہ بن چکا ہے، اب کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو یہ اس کی اپنی بدنیتی ہے۔ بل کہ ہم نے سخت جدوجہد کے بعد اسمبلی میں اس مسئلہ کو حل کرایا ہے جو الحمدللہ آج دستور کا حصہ ہے۔

دستوری ترمیم کے اثرات

خواجہ عابد نظامی:اس فیصلے کے بعد ملکی اور عالمی سطح پر اس کے اثرات کیا ہوں گے ؟

نورانی میاں:قادیانی ملک کے وفادار نہیں، ان کی ہمدردیاں آج بھی اسی ملک کے ساتھ ہیں، جہاں ان کا قادیان ہے۔ وہ ہمیشہ اکھنڈ بھارت کے علم بردار رہے ہیں۔ اس فیصلے سے ملک کی سالمیت کا تحفظ ہو گیا ہے، اب وہ ہمارے ملک کے خلاف کوئی سازش نہیں کر سکیں گے۔ جہاں تک عالمی سطح پر اس کے اثرات کا تعلق ہے تو قادیانی اخبار و رسائل بھی چیخنے لگے ہیں کہ اب وہ دنیا میں تبلیغ کس طرح کر سکیں گے؟ قادیانیوں نے دنیا بھر میں مشہور کر رکھا تھا کہ پاکستان میں احمدیوں کی اکثریت ہے، اب یہ لوگ وہاں تبلیغ کرنے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا۔ پاکستان کے مسلمانوں نے تو تمہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے تم یقینا ہمیں اسلام کی نہیں، بل کہ کسی اور مذہب کی دعوت دے رہے ہو۔

بیرون ملک تبلیغ اسلام

خواجہ عابد نظامی: کیا وجہ ہے کہ قادیانی بیرونی ممالک میں جا کر مرزائیت کی تبلیغ کرتے ہیں مگر مسلمان مبلغوں کو وہاں جا کر تبلیغ اسلام کی توفیق نہیں ہوتی؟

نورانی میاں: نہیں ، یہ بات نہیں۔ ہم بیرونی ممالک میں اسلام کی تبلیغ سے غافل نہیں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ یہ کام نہایت مستعدی سے انجام دیا ہے۔ اب لندن میں ورلڈ اسلامک مشن بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا ایک جامع پروگرام بنا رہا ہے۔ عن قریب پاکستان سے ایک سہ رکنی وفد وہاں جائے گا جس کے لیے حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی، پروفیسر شاہ فرید الحق قادری اور میرا نام تجویز ہوا ہے۔ لندن سے علامہ ارشد القادری بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ ہم یورپ، افریقہ اور امریکہ کے ہر مقام پر جائیں گے اور لوگوں کو قادیانیوں کی حقیقت سے آگاہ کریں گے۔ اس کے علاوہ جو لوگ ان کی تبلیغ کی وجہ سے ان کے دام میں پھنس گئے ہیں انھیں بھی صحیح اسلام کی طرف بلائیں گے۔

دستوری ترمیم کا سہرا

خواجہ عابد نظامی:بعض اس تاریخی فیصلے کا سہرا بھٹو صاحب کے سر باندھ رہے ہیں، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

نورانی میاں: بعض لوگوں کی فطرت میں خوشامد کا عنصر شامل ہوتا ہے، ایسے لوگ مادی مفادات کی خاطر ہر دَور میں چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں اور دونوں نہادوں کی ساری سوچ اسی مقصد کے لیے وقف ہو جاتی ہے کہ جب اور جس طرح بھی موقع ملے دُم ہلاتے ہوئے اونچی سرکار تک پہنچ جائیں اور خوشامد کر کے اپنے دُنیاوی مقاصد حاصل کریں۔ رہا کریڈٹ کا معاملہ تو وہ سراسر عوام کو جاتا ہے اور بالخصوص علماء اور طلبا کو جنھوں نے تند و تیز ہوا میں بھی (تحریک)ختم نبوت کا چراغ بجھنے نہیں دیا۔ جو لوگ اب قادیانی فیصلے کا کریڈٹ بھٹو صاحب کو دے رہے ہیں وہ پاکستان بنانے کا کریڈٹ غالباً ماونٹ بیٹن کو دیتے ہوں گے کیوں کہ ماؤنٹ بیٹن بھی کہا کرتا تھا کہ پاکستان میرے دستخطوں سے وجود میں آیا ہے۔آئیے ذرا دیکھیں تحریک کے دوران حکومت کا کردار کیا رہا؛

٭اقلیت کا مطالبہ کرنے والوں پر گولیاں چلائیں۔

٭ہزاروں علماء کو جیلوں میں بند کیا۔

٭قومی اسمبلی کے اندر آنسو گیس شیل پھینکے۔

٭ اخبارات میں ’’ختم نبوت‘‘ کا لفظ تک لکھنے پر پابندی لگائی۔

٭ ہر شہر میں دفعہ ۱۴۴ نافذ کی تا کہ عوام ختم نبوت سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار نہ کر سکیں۔

٭مسجدوں میں لاؤڈسپیکروں پر پابندی لگا دی تا کہ وہاں بھی کوئی جلسہ وغیرہ نہ کر سکے۔

٭ تحریک ختم نبوت کی حمایت کرنے والے اخبارات کے ڈیکلریشن تک منسوخ کر دیے۔

اب آپ ہی بتائیے کہ اگر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے تو ان مظالم کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اصل میں اس قسم کی باتیں اب خوشامدیوں کی طرف سے کہی جا رہی ہیں۔ حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ اس پوری تحریک میں پیپلز پارٹی نے من حیث الجماعۃ کوئی حصہ نہیں لیا حتّٰی کہ جن صوبوں میں ان کی اکثریت ہے وہاں بھی اسمبلیوں میں وہ کوئی قرارداد پاس نہیں کراسکے۔ کریڈٹ کی بات ہوئی ہے تو یہ لطیفہ بھی سن لیجیے کہ ۷ستمبر کو بھٹو صاحب نے جب اسمبلی میں تقریر کی تو مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب کہنے لگے؛

’’اس مسئلے کے حل کا سہرا بھٹو صاحب کے سر بندھتا ہے‘‘

یہ سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکلا ؛

’’سبحان اللہ! سہروں کو شرک و بدعت کہنے والے بھی آج سہرے باندھنے لگے ہیں۔‘‘ (سہ ماہی افکار رضا-افکار نورانی نمبر:۱۳۹-۱۴۷(

ایک اور انٹرویومیں آپ نے کہا:

قادیانیت پچھلی صدی کا منحوس فتنہ ہے جس نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو کافر بنانے کا کام سنبھال رکھا ہے۔ مرزا قادیانی ۱۹۰۸ء میں مرا اور پچھلی صدی کا وہ سب سے بڑا فتنہ پرور شخص تھا ، اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بے ادبیاں، گستاخیاں کیں۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کا عقیدہ وہ نہیں جو ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ اس نے خدا کا وجود اس انداز سے بیان کیا جیسے ہندوؤں وغیرہ کا تصور ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کا بارہا انکار کیااس نے درجنوں دعوے کیے وہ ایک مخبوط الحواس اور فاترالعقل شخص تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں ہی محمد اور احمد ہوں لیکن اس کو بے وقوف ،احمق، جاہل اور بے عقل لوگوں نے اپنا سب کچھ مان لیا بل کہ جو کچھ وہ بکتا گیا وہ مانتے گئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ فتنہ ہندوستان میں انگریزوں نے برپا کیا، ان کا پیسہ اور پلاننگ تھی، یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور مرزا خود ملکہ برطانیہ کے گُن گاتا تھا۔ میرے والدماجد خلیفۂ اعلیٰ حضرت سفیراسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی چوں کہ ایک مبلغ و مصلح تھے انھوں نے ساری زندگی خدمت دین میں گزاری۔ جنوبی امریکہ میں انھوں نے مرزائیت کے خلاف عملی جہاد کیا۔ تبلیغ دین کے لیے سب سے پہلے ۱۹۳۵ء میں وہ سرینام (جنوبی امریکہ) گئے ان کے ہاتھ پر الحمدللہ ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا۔

ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان ایک متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے اور سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ختم نبوت کا منکر کافر اور مرتد ہے… …ہم نے تحریک کودو محاذوں پر منظم کیا، ایک پارلیمنٹ کے اندر اور دوسرا پارلیمنٹ کے باہر۔ بیرونی محاذ پر کام کرنے کے لیے تمام مکاتب فکر کے اتفاق رائے اور اجماع سے مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل دی گئی جس نے ملک بھر میں مسلمانوں کو منظم کیا اور ایسی فضا پیدا ہوئی کہ حکومت کے لیے اس مسئلے کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا۔ مولانا محمد یوسف بنوری اس مجلس عمل کے صدر اور علامہ سید محمود احمد رضوی ناظم اعلیٰ تھے اور جس طرح ۱۹۵۳ء کی تحریک میں اس خانوادے کا قائدانہ کردار تھا اسی طرح ۱۹۷۴ء کی تحریک میں بھی انھوں نے اسی روایت کو قائم رکھا۔ پارلیمنٹ کے اندر ۱۹۷۴ء کے بجٹ اجلاس کے فوراً بعد میں نے قادیانیوں کو کافر و مرتد قرار دینے کے لیے قرارداد پیش کی، اسمبلی کے اندر جو دیگر علماء کرام موجود تھے یعنی مفتی محمود، علامہ عبدالمصطفیٰ الازھری، مولانا سید محمد علی رضوی، مولانا عبدالحق اور پروفیسر غفور احمد صاحب وغیرہم اس کے مویدین میں سے تھے۔

اگرچہ پاکستان کی پچھلی اسمبلیوں میں بھی علماء ارکان رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت مجھے نصیب فرمائی اور مجھے یقین کامل ہے کہ بارگاہ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم میں میرے لیے یہی سب سے بڑا وسیلۂ شفاعت ونجات ہو گا۔

)سہ ماہی انوارِ رضا-افکارِنورانی نمبر،ص۱۵۱-۱۵۷ (

ایک دل چسپ واقعہ

مولانا شاہ احمد نورانی بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں قادیانی خلیفہ مرزا ناصر قادیانی جماعت کی طرف سے محضر نامہ پڑھنے کے لیے جب قومی اسمبلی میں آیا تو خدا کی قدرت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز دیکھنے میں آیا کہ جس وقت اس نے محضر نامہ پڑھنا شروع کیا تو اسمبلی کے اس بند ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں اوپر کے چھوٹے پنکھے سے ایک پرندے کا پَر جو غلاظت سے بھرا ہوا تھا، سیدھا اس محضرنامے پر آ کر گرا جس سے مرزا ناصر ایک دم چونکا اور گھبرا کر کہا ’’I am disturbed‘‘مرزا ناصر کی گھبراہٹ، ذلت آمیز پریشانی اور اس عجیب و غریب واقعہ پر اراکین اسمبلی ششدر رہ گئے کیوں کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی غلاظت اوپر چھت سے اس طریقہ سے گری ہو۔ (سہ ماہی انوار رضا افکار نورانی نمبر،ص۴۲(

تحریکِ ختمِ نبوت اور نوائے وقت ، از محمد ثاقب رضا قادری، ص 153تا159۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi