آں حضرتﷺ کی تعظیم و توقیر اور ادب


تحریر: حضرت علامہ مولانا پروفیسر نوربخش توکلی﷫

ذیل میں چند ایسی مثالیں درج کی جاتی ہیں جن سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ حضرات صحابۂکرامرضی اللہ عنھمکس طرح اپنے آقائےنامدارﷺ کی تعظیم و توقیر بجالاتے اور آپ کا ادب ملحوظ رکھتے تھے۔

1۔ ماہ ذی قعدہ 6ھ ؁ میں جب آں حضرت ﷺحدیبیہ میں تھے تو بدیل بن درقاء خزاعی کے بعد عروہ بن مسعود جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے رسول اللہﷺسے گفتگو کرنے کے لیے حاضر خدمت اقدسﷺہوئے وہ واپس جاکر قریش سے یوں کہنے لگے:۔

اے میری قوم! اللہ کی قسم میں البتہ بادشاہ ہوں کے درباروں میں حاضر ہواہوں اور قیصر و کسریٰ و نجاشی کے ہاں گیا ہوں۔ اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اصحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسا کہ محمدﷺکے اصحاب محمدﷺکی کرتے ہیں اللہ کی قسم اس (محمدﷺ) نے جب کبھی کھٹکار پھینکا ہے تو وہ اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گراہے، جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا ہے۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب وضو کرتےہیں تو ان کے وضو کے پانی کے لیے باہم جھگڑےکی نوبت پہنچنے لگتی ہے اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو اصحابرضی اللہ عنھمان کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کر دیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے اسے قبول کرلو۔ [1]

2۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ تمیمی﷜ روایت کرتے ہیں: کہ رسول اللہﷺکے اصحاب رضی اللہ عنھم نے ایک جاہل اعرابی سے کہا کہ آں حضرتﷺسے دریافت کرو کہ قرآن میں جو سورۂ احزاب میں آیا ہے:۔

مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عٰہَدُوا اللہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنْہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحْبَہٗ۔

بعض مسلمانوں میں سے وہ مرد ہیں کہ سچ کیا انہوں نے وہ عہد جو اللہ سے باندھا تھا پس بعض ان میں سے وہ ہے جو پورا کر چکا کام اپنا۔ [2]

اس آیت میں قضی نحنبہ کون ہے؟ اصحاب کرامرضی اللہ عنھم آں حضرتﷺسے سوال کرنے کی جرأت نہ کیا کرتے تھے وہ آپ کی توقیر کیا کرتے تھے اور آپ سے ہیبت کھاتے تھے۔ اس اعرابی نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے منہ بھیر لیا، دوبارہ پوچھا تو بھی آپ نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر میں مسجد کے دروازے سے سبز کپڑوں میں نمودار ہوا جب رسول اللہﷺنے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ وہ سائل کہاں ہے؟ اعرابی نے کہا یا رسول اللہﷺسائل میں ہوں رسول اللہﷺنے ( میری طرف اشارہ کر کے ) فرمایا: یہ ان میں سے ہے جس نے اپنا عہد پوراکیا۔ [3]

3۔ حضرت انس﷜ روایت کرتے ہیں: کہ رسول اللہﷺاپنے اصحاب مہاجرین و انصاررضی اللہ عنھم میں تشریف لاتے اور وہ بیٹھے ہوتے ان کے درمیان حضرت ابو بکر﷜ و عمر ﷜بھی ہوتے ان میں سے سوائے حضرت ابو بکر﷜ و عمر﷜ کے کوئی حضورﷺ کی طرف نظر نہ اٹھاتا وہ دونوں حضورﷺکی طرف نظر اٹھا کردیکھتے اور حضور ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے وہ دونوں حضورﷺکی طرف دیکھ کر تبسم فرماتے اور حضورﷺان کی طرف دیکھ کر تبسم فرماتے۔ [4]

4۔ حضرت علی المرتضی﷜حاضرین مجلس کے ساتھ حضورﷺکی سیرت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جس وقت آپﷺکلام شروع کرتے تو آپ کے ہم نشین اس طرح سرجھکا لیتے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں، جس وقت آپ خاموش ہوجاتے تو وہ کلام کرتے اور کلام میں آپ کے سامنے تنازع نہ کرتے اور جو آپ کے سامنے کلام کرتا اسے خاموش ہوکر سنتے یہاں تک کہ وہ اپنے کلام سے فارغ ہوجاتا‘‘۔ [5]

اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺکی مجلس میں سب سے پہلے خود حضورﷺارشاد فرماتے تھے، حاضرین مجلس سب سکون کی حالت میں باادب بیٹھے سنا کرتے تھے، آپ کے بعد صحابۂِ کرام عرض کرتے۔ مگر وہ کلام میں تنازع نہ فرماتے تھے، مجلس میں ایک وقت میں دو شخص کلام نہ کرتے اور نہ کوئی دوسرے کے کلام کو قطع کرتا تھا بلکہ متکلم کے کلام کو سنتے رہتے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جاتا۔

5۔ حضرت انس بن مالک﷜بیان کرتے ہیں: کہ صحابۂِ کرامرضی اللہ عنھم(بپاسِ ادب) رسول اللہﷺکے دروازوں کو ناخنوں سے کھٹکھٹایا کرتے تھے۔ [6]

6۔ رسول اللہﷺذی قعدہ ۶ھ ؁میں عمرہ کے ارادے سے روانہ ہوئے، جب حدیبیہ میں پہنچے تو قریش ڈر گئے، اس لیے آپ نے حضرت عثمان غنی﷜ کو مکہ میں بھیجا اور ان سے فرمایا کہ تم قریش کو اطلاع دے دو کہ ہم عمرہ کے لیے آئے ہیں لڑائی کے لیے نہیں آئے اور یہ بھی فرمایا کہ ان کو دعوتِ اسلام دو اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو جو مکہ میں ہیں فتح کی بشارت دو، راستے میں حضرت ابان بن سعید اموی جو اب تک ایمان نہ لائے تھے حضرت عثمان﷜ سے ملے، انہوں نے حضرت عثمان﷜ کو جوار دی اور اپنے پیچھے گھوڑے پر سوار کر کے مکہ میں لے آئے،حضرت عثمان﷜نے رسول اللہﷺکا پیغام پہنچایا، حدیبیہ میں مسلمان کہنے لگے کہ عثمان﷜خوش نصیب ہے، جس نے بیت اللہ کا طواف کر لیا، یہ سن کر رسول اللہﷺفرمانے لگے: کہ میرا گمان ہے کہ عثمان﷜ ہمارے بغیر طوافِ کعبہ نہ کریں گے، اسی اثنا میں یہ غلط خبر اُڑی کہ حضرت عثمان﷜ مکہ میں قتل کردیے گئے، اس لیے رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے بیعت رضوان لی، حضرت عثمان﷜چونکہ مکہ میں تھے، اس لیے حضور انورﷺنے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر مار کر ان کو بیعت کے شرف میں داخل کیا، اسی طرح رسول اللہﷺکا ہاتھ حضرت عثمان﷜ کا ہاتھ قرار پایا، بیعت رضوان کے بعد جب حضرت عثمان﷜ واپس تشریف لائے تو مسلمانوں نے ان سے کہا کہ آپ خوش نصیب ہیں کہ بیت اللہ کا طواف کر لیا، اس پر حضرت عثمان﷜نے جواب دیا: کہ تم نے میری نسبت گمان بدکیا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں وہاں ایک سال ٹھرا رہتا اور حضورﷺ حدیبیہ میں ہوتے تو میں آپ کے بغیر طواف نہ کرتا، قریش نے مجھ سے کہا تھا کہ طواف کرلو، مگر میں نے انکار کر دیا تھا۔ [7]

حضرت عثمان غنی﷜کا یہ ادب قابل غور ہے کہ کفار مکہ آپ سے کہہ رہے ہیں کہ تم بیعت اللہ کا طواف کرلو، مگر آپ جواب دیتے ہیں کہ مجھ سے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اپنے آقائے نامدارﷺکے بغیر اکیلا طواف کروں، ادھر جب مسلمانوں نے کہا کہ خوشا حال عثمان﷜کا کہ ان کو خانہ کعبہ کا طواف نصیب ہوا، تو رسول اللہﷺیہ دین سن کر فرماتے ہیں: کہ عثمان﷜بغیر ہمارے ایسا نہیں کرسکتا۔ آقا ہو تو ایسا، خادم ہو تو ایسا۔ امام بوصیری﷫نے قصیدہ ہمزیہ میں کیا خوب فرمایا ہے:۔

و ابی یطوف بالبیت اذلم یدن منہ الی النبی فتاء فجزتہ عنھا یلیعۃ رضوا نَ ید من نبیہ بیضاء ادب عندہ فضا عف الاعمال بالترک عبد الادباء۔

اور حضرت عثمان﷜نے بیت اللہ کے طواف سے انکار کر دیا، اس لیے کہ بیت اللہ کی کوئی طرف رسول اللہﷺکےقریب نہ تھی پس ان کو رسول اللہﷺکے یدِ بیضا نے بیعت رضوان میں اس نیک عمل کا بدلہ دیا۔ یہ(تنہا طواف نہ کرنا)عثمان﷜ میں ایک بڑا ادب تھا جس کے سبب ان کو طواف سے دگنا ثواب ملا۔ اصحابِ محمدرضی اللہ عنھم کیا خوب ادیب تھے۔

اس میں شک نہیں کہ صحابۂِ کرامرضی اللہ عنھمسب کے سب باادب تھے، مگر حضرت عثمان﷜میں یہ خوبی خصوصیت سے تھی، کیونکہ ان میں وصفِ حیاء جو منشاءِ ادب ہے سب سے زیادہ تھا۔ آپ نے جب سے رسول اللہﷺسے بیعت کی، اپنا دایاں ہاتھ کبھی اپنی شرمگاہ پر نہ رکھا۔

7۔ حضرت عمرو بن عاص﷜کی موت کا وقت آیا تو آپ اپنے صاحبزادے سے اپنی تین حاجتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا: پہلی حالت یہ تھی کہ میں سب سے زیادہ رسول اللہﷺکا جانی دشمن تھا، اگر میں اس حالت میں مرجاتا تو دوزخی تھا۔

دوسری حالت اسلام کی تھی کہ کوئی شخص میرے نزدیک رسول اللہﷺسے زیادہ محبوب اور میری آنکھوں میں آپ سے زیادہ جلالت و ہیبت والا نہ تھا اور میں آپ کی ہیبت کے سبب سے آپ کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا، اس واسطے اگر مجھ سے حضورﷺکا حلیہ شریف دریافت کیا جائے تو میں بیان نہیں کر سکتا، اگر میں اس حال میں مرجاؤں تو امید ہے کہ اہل جنت میں سے ہوں گا۔

تیسری حالت حکمرانی کی تھی جس میں مَیں اپنا حال نہیں جانتا۔ [8]

8۔ حضرت اسلع بن شریک﷜کا بیان ہے: کہ میں رسول اللہﷺکی ناقہ کا کجا وہ کسا کرتا تھا۔ موسم سرما میں ایک رات مجھے غسل کی حاجت ہوگئی، رسول اللہﷺنے سفر کا ارادہ کیا، میں نے حاجت جنابت میں کجاوہ کسنا پسند نہ کیا اور میں ڈرا کہ اگر ٹھنڈے پانی سے غسل کروں تو مر جاؤں گا یا بیمار ہو جاؤں گا، اس لیے میں نے انصار میں سے ایک شخص سے کجا وہ کسوایا پھر میں نے پانی گرم کر کے غسل کیا اور رسول اللہ﷜ اور آپ کے احباب سے جا ملا، آپ نے فرمایا: اے اسلع﷜آج کجا وہ اپنی جگہ سے کیوں ہل گیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں نے نہیں کسا ایک انصاری نے کسا ہے، آپ نے سبب دریافت فرمایا، میں نے عرض کیا مجھے غسل کی حاجت ہوگئی تھی اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے سے مجھے اپنی جان کا خوف تھا، اس لیے میں نے اس سے کسوایا تھا اور پھر پانی گرم کر کے میں نے غسل کیا تھا اس پر اللہ نے آیۂ تمیم یعنییٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنۡتُمْ سُکَارٰی الخ(سورۂ نساء آیت۴۳)نازل فرمائی۔ [9]

9۔ ایک روز رسول اللہﷺحضرت ابو ہریرہ﷜سے ملے۔ ان کو غسل کی حاجت تھی، ان کا بیان ہے: کہ میں پیچھے ہٹ گیا، پھر غسل کر کے حاضر خدمت ہوا، آپ نے پوچھا: کہ تم کہاں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا: کہ مجھے غسل کی حاجت تھی، آپ نے فرمایا :کہ مومن پلید نہیں ہوتا۔ [10]

10۔ حضرت ابو ہریرہ﷜ بیان فرماتے ہیں: کہ رسول اللہﷺ حذیفہ بن الیمان﷜ سے ملے۔ آپ حضرت حذیفہ﷜سے مصافحہ کرنے لگے، حضرت حذیفہ﷜پیچھے ہٹ گئے اور یہ عذر کیا کہ مجھ کو غسل کی حاجت ہے،رسول اللہﷺنے فرمایا: کہ مسلمان جب اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے تو اس کے گناہ یوں دور ہو جاتے ہیں جیسا کہ درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ جب وہ دونوں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ جن میں ننانوے اس کے لئے ہیں جو ان دونوں میں سے زیادہ بشاش وکشادہ اور نیکوکار اور اپنے بھائی کی حاجت روائی میں احسن ہو۔ [11]

11۔ حضرت عثمان بن عفان﷜نے حضرت قباث بن اثیم﷜سے پوچھا: کہ تم بڑے ہو یا رسول اللہﷺ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپﷺ مجھ سے بڑے ہیں، البتہ میں پیدائش میں حضورﷺ سے پہلے ہوں۔ [12]

۱۲۔ حضرت سعید بن یربوع﷜قرشی مخذومی کا نام صُرم تھا۔ ایک روز رسول اللہﷺنے ان سے پوچھا: کہ ہم میں کون بڑا ہے، میں یا تو؟ انہوں نے جواب دیا: کہ آپ مجھ سے بڑے ہیں اور نیک ہیں، میں عمر میں آپ سے زیادہ ہوں، یہ سن کر آپ نے ان کا نام بدل دیا اور فرمایا کہ تم سعید ہو۔ [13]

۱۳۔ حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالی عنھا کا بیان ہے: کہ میں نے حدیث و کلام میں حضرت فاطمہرضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو رسول اللہﷺکے مشابہ نہیں دیکھا، جب وہ حضورﷺکی خدمت میں آتیں تو آپ ان کے لیے کھڑے ہو جاتے اور مرحبا کہہ کر ان کو چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور جب حضورﷺان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے لیے کھڑی ہو جاتیں اور آپ کا دست مبارک پکڑ کر مرحبا کہتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ جب مرض الموت میں وہ حضورﷺ کی خدمت اقدس میں آئیں تو حضورﷺ نے مرحبا کہہ کر ان کو چوما۔ [14]

14۔ دو یہودی حضوراقدسﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے نَو ظاہر نشانیاں دریافت کیں، آپ نے بیان فرمادیں، ’’تو انہوں نے آپ کےدونوں ہاتھ مبارک اور دونوں پاؤں مبارک کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ پیغمبر ہیں‘‘۔ [15]

15۔ صفوان بن عال﷜روایت کرتے ہیں: کہ یہودیوں کی ایک قوم نے رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک اور ہر دو پائے مبارک کو بوسہ دیا۔ [16]

16۔ حضرت ابن عمر﷜کا بیان ہے: کہ ہم کسی غزوہ میں تھے۔ لوگ پسپا ہو گئے، ہم نے کہا کہ ہم نبیﷺسے کس طرح ملیں گے؟ حالاں کہ ہم لشکر سے بھاگ آئے ہیں اور خدا کا غضب لیے پھرے ہیں، پس ہم نبیﷺکی خدمت میں نماز فجر سے پہلے حاضر ہوئے، حضورﷺنماز سے فارغ ہو کر نکلےاور فرمایا: کہ یہ کون ہیں؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم فراری ہیں، آپ نے فرمایا:۔

’’نہیں بلکہ تم عکاری (ہٹ کر حملہ کرنے والے )ہو‘‘

یہ سن کر ہم نے حضورﷺکے دست مبارک کو بوسہ دیا، آپ نے فرمایا: کہ میں تمہارا گروہ ہوں میں مسلمانوں کا گروہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:۔

اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ(سورۂ انفال ۱۶)

مگر بہٹنے والا لڑائی کے لیے یا پناہ ڈھونڈنے والا ایک گرد کی طرف۔ [17]

17۔ ام ابان بنت دازع بن زارع اپنے دادا زارع سے جو وفد عبد القیس میں تھے روایت کرتی ہیں: کہ انہوں نے کہا کہ جب ہم مدینہ میں پہنچے تو ہم اپنے کجاووں سے جلدی جلدی اتر کہ رسول اللہﷺکے دستِ مبارک اور پائے مبارک کو چومنے لگے، منذر الشیخ﷜ (رئیس وفد) کچھ دیر کے بعد لباس تبدیل کر کے آں حضرتﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، حضور نے فرمایا کہ تم میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے، حلم و وقار منذر﷜نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! یہ خصلتیں مجھ میں کسبی ہیں یا جِبِّلی؟ حضورﷺ نے فرمایا: جبلی ہیں، یہ سن کر منذر﷜ نے کہا: سب ستائش خدا کو ہے جس نےمجھے ایسی دو خصلتوں پر پیدا کیا ہے جن کو اللہ اور اللہ کا رسولﷺ دوست رکھتے ہیں۔ [18] روایت بیہقی میں ہے کہ منذر﷜ نے خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہو کر حضورﷺ کے دستِ مبارک کو پکڑ کر بوسہ دیا۔ [19]

۱۸۔ حضرت بریدہ﷜ روایت کرتے ہیں: کہ ایک اعرابی رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا: یارسول اللہﷺ! میں اسلام لایا ہوں، مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیے جس سے میرا یقین زیادہ ہو جائے، آپ نے فرمایا: کہ تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا: کہ آپ اس درخت کو اپنے پاس بلالیں، آپ نے فرمایا: کہ تو جاکر اسے بلالا، وہ اس کے پاس گیا اور کہا: کہ رسول اللہﷺتجھے بلاتےہیں، یہ سن کر وہ ایک طرف کو جھکا اور اس کی جڑیں اکھڑیں، پھر دوسری طرف کو جھکا اور جڑیں اکھڑیں، اسی طرح وہ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: السلام علیک یارسول اللہﷺ یہ دیکھ کر اعرابی نے کہا: مجھے کافی ہے، مجھے کافی ہے آں حضرتﷺنے اس درخت سے فرمایا: کہ اپنی جگہ پر چلا جا، چنانچہ وہ چلاگیا اور اپنی جڑوں پر قائم ہوگیا، اعرابی نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سر مبارک اور ہر دو پائے مبارک کو بوسہ دوں، حضورﷺ نے اجازت دے دی اور اس نے سرمبارک اور دو پائے مبارک کو چوما پھر اس نے عرض کیا: کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کو سجدہ کروں، آپ نے فرمایا: کہ ایک شخص دوسرے کو سجدہ نہ کرے، اگر میں ایسے سجدے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، کیونکہ شوہر کا اس پر بڑا حق ہے۔ [20]

19۔ حضرت ابو بزہ مکی مخزومی﷜بیان کرتے ہیں: کہ میں اپنے آقا عبداللہ بن سائب﷜ کے ساتھ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے اُٹھ کر آں حضرتﷺکے دست مبارک اور پائے مبارک کو بوسہ دیا (اصابہ۔ترجمہ ابوبزہ مکی)۔

20۔ حضرت مسور بن مخرمہ﷜ ذکر کرتے ہیں: کہ میرے والد مخرمہ﷜ نے مجھ سے کہا: بیٹا! مجھے خبر ملی ہے کہ رسول اللہﷺکے پاس قبائیں آئی ہیں، جنہیں وہ تقسیم فرمارئے ہیں، مجھے ان کے پاس لے چل چنانچہ ہم وہاں حاضر ہوئے، اس وقت رسول اللہﷺاپنے دولت خانہ میں تھے، والد نے مجھ سے کہا: بیٹا! نبیﷺکو میرے واسطے بلا دو، مجھ پر یہ امر ناگوار گزرا، میں نے کہا، کیا میں تمہارے واسطے نبیﷺکو آواز دوں؟ میرے والد نے کہا! وہ جبار نہیں ہیں، تب میں نے آپ کو آواز دی، آپ نکلے اور آپ کے پاس ایک دیباکی قبا تھی، جس کے تُکمے سونے کے تھے، آپ نے فرمایا: اے مخرمہ﷜! یہ ہم نے تمہارے واسطے چُھپا رکھی ہے اور مخرمہ﷜ کو عطا فرمادی۔ [21]

21۔ حضرت قیس بن سعد بن عبادہ انصاری﷜ ذکر کرتے ہیں: کہ ایک روز رسول اللہﷺغریب خانہ پر تشریف لائے اور دروازے میں فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ میرے باپ نے دھیمی آواز سے جواب دیا، میں نے کہا: کیا آپ رسول اللہﷺکو اندر آنے کی اجازت نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا اسی طرح رہنے دیجیے تاکہ حضورﷺ ہم پر زیادہ سلام بھیجیں، رسول اللہﷺنے دوسری بار اسی طرح سلام کہا، حضرت سعد﷜ نے دھیمی آواز سے جواب دیا، حضورﷺتیسری بار سلام کہہ کر واپس ہوگئے، حضرت سعد﷜ آپ کے پیچھے نکلے اور عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میں آپ کا سلام سنتا رہا اور دھیمی آواز سے جواب دیتارہا، تاکہ آپ ہم پر زیادہ سلام بھیجیں، یہ سن کر حضورﷺحضرت سعد﷜ کے ساتھ واپس تشریف لائے، آپ نے حضرت سعد﷜ کی درخواست پر غسل فرمایا، حضرت سعد نے زعفران سے رنگی ہوئی چادر پیش کی جو آپ نے اوڑھ لی اور پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی اللہم اجعل صلواتک و رحمتک علیٰ ال سعد بن عبادۃ بعد ازاں آپ نے کھانا تناول فرمایا، جب آپ واپس ہونے لگے تو میرے والد نے سواری کے لیے دراز گوش پیش کیا، جس پر لحاف پڑا ہوا تھا اور مجھ سے کہا کہ ساتھ ہو لو، میں حضورﷺ کے ساتھ ہو لیا، حضورﷺنے مجھ سے فرمایا: کہ میرے ساتھ سوار ہو جاؤ میں نے انکار کیا، آپ نے فرمایا: کہ سوار ہو جاؤ ورنہ واپس ہو جاؤ اس لیے میں واپس چلا آیا۔(ابو داؤد کتاب اللوب)

22۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری﷜ کے والد بزرگوار بہت سا قرض چھوڑ گئے تھے۔ جب کھجوروں کے توڑنے کا وقت آیا تو حضرت جابر﷜ نے رسول اللہﷺکی خدمت میں یوں عرض کیا:۔

’’آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد جنگ احد کے دن شہید ہوگئے اور اپنے اوپر بہت سا قرض چھوڑ گئے، میں چاہتا ہوں کہ قرضخواہ آپ کی زیارت کرلیں‘‘۔

حضرت جابر﷜ نے یوں نہ کہا کہ آپ قرضخواہوں کے پاس چلیے، بلکہ بپاس ادب عرض کیا کہ قرضخواہ آپ کی زیارت کرلیں۔ (بخاری باب قضاء الوصی دیون المیت بغیر محضرمن الورثۃ)

23۔ ایک روز قبیلۂ اسلم کے چند صحابۂکرامرضی اللہ عنھم تیر اندازی میں باہم مقابلہ کر رہے تھے کہ رسول اللہﷺکا گزروہاں ہوا۔ جب حضرت محجن بن اورع﷜ ایک اسلمی ﷜سے مقابلہ کر رہے تھے تو آں حضرت ﷺنے فرمایا: اے بنی اسماعیل! تم تیر اندازی کرو کیونکہ تمہارا باپ تیر انداز تھا۔ تم تیر پھینکتے جاؤ میں ابن اورع﷜ کے ساتھ ہوں، یہ سن کر حضرت نضلہ بن عبید اسلمی ﷜نے اپنے ہاتھ سے کمان پھینک دی اور عرض کیا:۔

’’جب حضورﷺ ابن ا ورع کے ساتھ ہیں تو میں اس کے ساتھ تیر نہیں پھینکتا کیونکہ جس کے ساتھ آپ ہیں وہ مغلوب نہیں ہو سکتا‘‘۔

یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا: کہ تم تیر اندازی کروں میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [22]

24۔ جب آں حضرتﷺہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری﷜ کے مکان میں قیام فرمایا۔ آپ مکان کے نیچے کے حصے میں ٹھرے اور ابو ایوب﷜ مع عیال اوپر کے حصے میں رہے، ایک رات ابو ایوب﷜ بیدار ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم رسول اللہﷺکے سر مبارک کے اوپر چلتے پھرتے ہیں، یہ کہہ کر انہوں نے اس جگہ سے ہٹ کر ایک جانب میں رات بسر کی، پھر صبح کو آں حضرتﷺسے عرض کیا: حضور اقدسﷺنے فرمایا: کہ نیچے کے حصے میں میرے واسطے آسانی ہے، انہوں نے عرض کیا کہ میں اس چھت پر نہیں چڑھتا جس کے نیچے آپ ہوں، پس آں حضرتﷺاوپر کے حصے میں تشریف لے گئے اور ابو ایوب﷜ نیچے کے حصے میں چلےآئے، ابو ایوب﷜ حضورﷺکے لیے کھانا بھیجا کرتے جو بچ کر آتا، خادم سے دریافت کرتے کہ طعام میں حضور اقدسﷺ کی انگلیاں کس جگہ تھیں؟ پھر اسی جگہ سے کھاتے، ایک روز کھانا تیار کیا گیا جس میں لہسن تھا، جب کھانا واپس آیا تو حضرت ابو ایوب﷜ نے حسب معمول خادم سے حضور انورﷺ کی انگلیوں کی جگہ دریافت کی، جواب ملا: کہ حضورﷺ نے کھایا ہی نہیں، یہ سن کر ابو ایوب﷜ ڈر گئے اور جاکر عرض کیا: کہ کیا یہ (لہسن) حرام ہے؟ آپ نے فرمایا کہ حرام تو نہیں، لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا یہ سن کر انہوں نے فرض کیا: کہ میں بھی اس چیز کو نا پسند کرتا ہوں جسے آپ نا پسند کرتے ہیں ( حضورﷺ کی کراہت کی وجہ یہ کہ) آپ کے پاس فرشتے اور وحی آیا کرتی تھی۔ [23]

25۔ حضرت قیلہ بنت مخرمہ عنبریہرضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ کو مسجد میں دیکھا آپ اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا بیان ہے: کہ جب میں نے آپ کو نہایت خشوع سے اس حالت میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو (ہیبت و جلال کے سبب سے) میں خوف سے کانپنے لگی۔ (شمائل ترمذی باب ماجاء فی جلسۃ رسول اللہﷺ)۔

26۔ حضرت براء بن عازب﷜ فرماتے ہیں: کہ میں رسول اللہﷺ سے کچھ پوچھنا چاہتا تو اسے (آپ کی ہیبت کی وجہ سے) دو سال (یاسالوں ) تاخیر میں ڈال دیتا۔ [24]

27۔ حضرت حذیفہ﷜فرماتےہیں:کہ جب ہم رسول اللہﷺکے ساتھ شریکِ طعام ہوتے تو ہم طعام میں ہاتھ نہ ڈالتے یہاں تک کہ رسول اللہﷺشروع فرماتے اور اپنا دست مبارک اس میں ڈالتے (صحیح مسلم باب آداب الطعام و الشرب و احکامہا)۔

آں حضرتﷺکی تعظیم و توقیر جس طرح آپ کی حیات دنیوی میں واجب تھی اسی طرح وفات شریف کے بعد بھی واجب ہے۔ سلف و خلف کا یہی طریقہ رہا ہے، ذیل میں چند مثالیں بغرض توضیح درج کی جاتی ہیں:۔

1۔ حضرت اسحٰق﷫(متوفی ذیقعدہ 352ھ؁فرماتے ہیں: کہ آں حضرتﷺکے وصال شریف کے بعد جب آپ کا ذکر آتا تو صحابۂِ کرام خشوع و انکسار ظاہر کیا کرتے۔ ان کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور وہ حضورﷺ کے فراق اور اشتیاقِ زیارت میں رویا کرتے، یہی حال بہت سے تابعین کا تھا۔(شفاء شریف)

2۔ حضرت سائب بن یزید﷜ کا بیان ہے: کہ میں مسجد نبوی میں لیٹا ہوا تھا ایک شخص نے مجھ پر کنکری ماری میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر﷜ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان دو شخصوں کو بلاؤ میں بُلالایا، آپ نے ان سے پوچھا تم کون ہو یا کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں، آپ نے فرمایا: اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں دُرے لگاتا، کیا تم رسول اللہﷺ کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟ (صحیح بخاری باب رفع الصوت فی المسجد)

3۔ حضرت نافع﷜روایت کرتے ہیں: کہ عشاء کے وقت حضرت عمر فاروق﷜مسجدِ نبوی میں تھے۔ ناگاہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز کان میں آئی، آپ نے اسے بلا کر پوچھا تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ میں قبیلہ ثقیف سے ہوں، پھر دریافت کیا تم اس شہر کے رہنے والے ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں بلکہ طائف کا رہنے والا ہوں، یہ سن کر آپ نے اسے دھمکایا اور فرمایا: اگر تم مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو تمہیں سزا دیتا، اس مسجد میں آوازیں بلند نہیں کی جاتیں۔(وفاء الوفاء جزوثانی ص352)

4۔ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی﷜ نے رسول اللہﷺکی مسجد میں امام مالک﷜ سے مناظرہ کیا اور اثنائے مناطرہ میں آواز بلند کی، حضرت امام﷜ نے فرمایا: اے امیر المؤمنین﷜ اس مسجد میں اپنی آواز کو بلند مت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو یوں ادب سکھایالَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوٰتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ [25] اور ایک قوم جو ادب بجالائی ان کی یوں تعریف کی۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصْوٰتَہُمْ [26] اور ایک قوم کی یوں مذمت کی، یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ [27] آں حضرتﷺکا احترام وفات شریف کے بعد ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ حالت حیات میں تھا۔ یہ سن کر ابو جعفر﷜دھیما پڑ گیا۔ کہنے لگا اے عبد اللہ﷜(امام مالک ) کیا میں قبلہ رو ہو کر دعا مانگوں یا رسول اللہﷺکی جانب منہ کروں امام مالک﷜ نے جواب دیا: کہ تم رسول اللہﷺکی طرف سے اپنا منہ کیوں پھیرتے ہو حالاں کہ وہ قیامت کے دن تمہارے وسیلہ اور تمہارے باپ آدمعلیہ السلام کے وسیلہ ہیں، بلکہ تم حضورﷺ ہی کی طرف منہ کرو اور آپ ہی کے وسیلہ سے دعا مانگو، اللہ تعالی قبول کرے گا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔

وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا [28] ۔

اگر یہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آتے اورخدا سے بخشش مانگتے اور پیغمبر ان کے لیے بخشش مانگتا تو وہ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ (شفاء شریف)

5۔ شیخ الاسلام [29] نور الدین علی بن احمد سممودی﷜ (متوفی911ھ؁ لکھتےہیں: کہ ہمارے زمانے میں منکرات سے ایک امر جس میں متصدیان صیغۂِ تعمیر تساہل کرتے ہیں یہ ہے کہ مسجد نبوی میں آرہ کش اور سنگتراش کام کرنے کے لیے لائے جاتے ہیں، اشیاء کے توڑنے پھوڑنے اور چیرنے وغیرہ سے سخت شور و شغب برپا ہوتا ہے، حالاں کہ یہ سب کام مسجد سے باہر تیار ہوسکتا ہے، اسی طرح عمارت کا مصالحہ خچروں اور گدھوں پرمسجدمیں لایا جاتا ہے حالانکہ اسے آدمی مسجد کے دروازے میں سے اندر لاسکتےہیں، ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا اگر مسجد بنوی کے گرد کسی مکان میں میخ کے ٹھونکنے کی آواز سنتیں تو کہلا بھیجتیں: کہ رسول اللہﷺکو اذیت نہ دو اور یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ حضرت علی المرتضی﷜نے اپنے گھر کے دونوں کو اڑ مناصع [30] میں تیار کرائے کہ مبادا تیاری میں لکڑی کی آواز سے رسول اللہﷺکو اذیت پہنچے انتہیٰ(وفاء الوفاء جزءاول ص479)

6۔ امام مالک﷜ فرماتے ہیں: کہ میں ایوب سختیانی، محمد بن منکدر تیمی، امام جعفر صادق، عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکرصدیق، عامر بن عبداللہ بن زبیر، صفوان بن سلیم اور امام محمد بن مسلم زہری رضی اللہ عنھمسے ملا کرتا تھا میں نے ان کا یہ حال دیکھا کہ جب رسول اللہﷺ کا ذکر آتا تو ان کا رنگ زردہو جاتا وہ شوقِ زیارت میں رویا کرتے بلکہ بعض تو بے خود ہو جایا کرتے۔ (شفاءشریف)

7۔ امام شافعی﷜ کا بیان ہے: کہ میں نے امام مالک﷜ کے دروازے پر کئی ایسے خراسانی گھوڑے اور مصری خچر دیکھے کہ جن سے بہتر میں نے نہیں دیکھے ہیں میں نے امام مالک﷜ سے کہا کہ یہ کیسے اچھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب میری طرف سے آپ کے لیے ہدیہ ہیں میں نے کہا اپنی سواری کے لیے ان میں سے کچھ لیں انہوں نے کہا مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ اس زمین کو جس میں رسول اللہﷺہیں اپنے گھوڑے کے سموں سے پامال کروں۔ (وفاء الوفاء جزءثانی ص450)

9۔ ایک شخص نے کہا کہ مدینہ طیبہ کی مٹی خراب ہے امام مالک﷜ نے فتویٰ دیا کہ اسے تیس دُرے مارے جائیں اور قید کیا جائے اور فرمایا کہ ایسا شخص تو اس لائق ہے کہ اس کی گردن ماری جائے وہ زمین جس میں رسول اللہﷺآرام فرما رہے ہیں اس کی نسبت وہ گمان کرتا ہے کہ وہ خراب ہے(شفاء شریف)

10۔ حضرت احمد بن فضلو﷜ یہ بڑے غازی اور تیر انداز تھے۔ انہوں نے جب سنا کہ آں حضرتﷺنے کمان کو اپنے دست مبارک میں لیا ہے تو اس روز سے بپاس ادب کبھی کمان کو بے وضو نہیں چھؤا۔(شفاء شریف)

11۔ حضرت عثمان غنی﷜ کے ہاتھ میں رسول اللہﷺکا ایک عصا تھا۔ حضرت جہجاہ غفاری﷜ نے یوم وار سے پہلے ان کے ہاتھ سے چھین لیا اور اپنے گھٹنے پر رکھ کر اسے توڑنا چاہا (یاتوڑدیا) اس جرأت پر حاضرین چلا اٹھے، ان کے گھٹنے میں مرض اکلہ پیدا ہوگیا، انہوں نے بدیں خیال کہ مبادا مرض بدن میں سرایت کر جائے کھٹنے کو کاٹ دیا، مگر ایک سال تمام نہ ہونے پایا کہ وفات پائی۔

12۔ حضرت ابو الفضل جوہری اندلسی﷫نے زیارت کے لیے مدینہ منورہ کا قصد کیا ۔جب اس کے مکانات کے قریب پہنچے تو سواری سے اتر پڑے اور یہ اشعار پڑھتے ہوئے پیدل چلے:۔

ولتا راینا رسم من تم یدع لنا فؤادا لعرفان الرسوم ولالبا نزلنا عن الاکوار نمسیٔ کرامۃلمن بان عنہ ان نلم بہ رکبا۔ (شفاء شریف)

جب ہم نے اس ذات شریف کے آثار دیکھے جس نے آثار شریفہ کی پہچان کے لیے ہمارے واسطے نہ دل چھوڑا نہ عقل خاص ہم پالانوں سے اتر پڑے اور اس ذات شریف کی تعظیم کے لیےپیدل چلنے لگے جس کی زیارت سواری کی حالت میں بعید از ادب ہے۔

بعض مشائخ کرام پیدل حج کو گئے، ان سے سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ غلام مفرور اپنے مولا کے دروازے پر سوار ہو کر نہیں آتا، اگر ہم میں طاقت ہوتی تو سر کے بل آتے۔ (شفاء شریف)

رسول اللہﷺکی تعظیم و توقیر میں سے یہ امر بھی ہے کہ آپ کی آلِ اطہار و ذُرِّیَّتِ طیبہ اور ازواج مطہرات کی تعظیم و تکریم اور ان کے حقوق کی رعایت کی جائے، اسی طرح آں حضرتﷺکے اصحاب کرامرضی اللہ عنہم کی تعظیم و توقیر کرنا حضور علیہ السلام کی تعظیم و تکریم ہے، صحابۂ کرام کے درمیان جو اختلافات و مشاجرات وقوع میں آئے، ان کی تاویل نیک کرنی چاہیئے، وہ مجتہد تھے، جو کچھ انہوں نے کیا ازروئے اجتہاد و خلوص کیا وہ کسی طرح موردِ طعن نہیں ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین تفصیل کی اس مختصر کتاب میں گنجائش نہیں۔

ترسم آں قوم کہ بردردکشاں کے خندنر
درسر کار خرابات کنند ایماں را

قاضی عیاض ﷫شفاء شریف میں فرماتے ہیں: کہ وہ تمام چیزیں جن کو رسول اللہﷺسے نسبت ہے ان کی تعظیم و تکریم کرنا حرمین شریفین میں آپ کے مشاہدہ و مسکن کی تعظیم کرنا، آپ کے منازل اور وہ چیزیں جن کو آپ کے دستِ مبارک یا کسی اور عضو نے چھوایا آپ کے نام سے پکاری جاتی ہوں ان سب کا اکرام کرناحضورﷺہی کی تعظیم و تکریم میں داخل ہے۔

(حقوقِ مصطفیٰﷺ ص 24 تا43)



[1] ۔ صحیح بخاری کتاب الشروط

[2] ۔ سورۃاحزاب آیت نمبر23

[3] ۔ ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورۃ احزاب

[4] ۔ ترمذی ابواب المناقب

[5] ۔ شمائل ترمذی باب ماجاءنی خلق رسول اللہﷺ

[6] ۔ الادب المفرد للبخاری باب قرع الباب اس روایت سے پایا جاتا ہے کہ آں حضرت ﷺ کے دروازوں میں حلقے نہ تھے۔صحابۂ کرام بپاس ادب بجائے دستک دیئے کے ناخنوں سے کھٹکھٹایا کرتے تھے۔

[7] ۔ راد المعاد لابن قیم قصۂ حدیبیہ اور در منثور للسیوطی تفسیر سورۃ فتح

[8] ۔ صحیح مسلم باب کون السلام یدم ماقبلہ و کذا الحج و العمرۃ

[9] ۔ اصابۃ بحوالہ طبرانی ترجمہ اسلع الاعرجی تفسیر درمنشور بحوالہ طحاوی و دار قطنی و طبرانی و بیہقی وغیرہ

[10] ۔ ترمذی کتاب الطہارت باب ما جاء فی مصافحۃ الجنب

[11] ۔ کشف الغمہ للشعرنی جزء ثانیص184

[12] جامع ترمذی باب ما جاءنی میلادالنبیﷺ

[13] ۔ اصابہ ترجمہ سعید بن یربوع

[14] ۔ الادب المفرد للبخاری باب الرجل یقبل ابنتہ

[15] ۔ جامع ترمذی ابواب الاستیذان و الادب۔ باب ماجاء فی قبلۃ الید و الرجل

[16] ابن ماجہ باب الرجل یقبل ید الرجل

[17] ۔ الادب المفرد للبخاری باب تقبیل الید تفسیر در منشور بحوالہ ابو داؤد ترمذی و ابن ماجہ وغیرہ

[18] ۔ ابو داؤد کتاب الادب باب فی قبلۃ الجسد الادب المفرد للبخاری باب تقبیل الید

[19] ۔ زرقانی علی المواہب وفد عبد اقیس الادب المفرد للبخاری باب التؤدۃ فی الامور۔

[20] ۔ دلائل حافظ ابی نعیم مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن ص148

[21] ۔ صحیح بخاری کتاب اللباس باب الزند بالذہب

[22] ۔ اصابہ بحوالہ ابن اسحاق ترجمہ محجن بن اورع اسلمی نیز مسکوٰۃ بحوالہ بخاری باب اعداد آلۃ الجہاد

[23] ۔ صحیح مسلم باب اباحت اکل الثوم

[24] ۔ شفاء شریف علی القاری شرح میں لکھتے ہیں کہ اسے ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے

[25] ۔ سورۃ حجرات آیت2

[26] ۔ سورۃحجرات آیت3

[27] ۔ سورۃ حضرات آیت4

[28] ۔ سورۃ نساء آیت64

[29] ۔ وفاءالوفاءبحوالہ ابن زبالہ جزء اول ص398

[30] ۔ مناصع مدینہ سے باہر ایک جگہ کا نام ہے جہاں عورتیں زمانہ جاہلیت میں رات کے وقت بول براز کے لیے جایا کرتی تھیں کذا البلدان للیاقوت۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi