تمھاری شان میں جو کچھ کہوں اُس سے سوا تم ہو


از: خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مبلغِ اعظم شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی ﷫

خلیفۂ اعلیٰ حضرت، ملک العلما حضرت علامہ سیّد محمد ظفرالدین قادری بہاری﷫اپنی تصنیف ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ (جلدِ اوّل) میں رقم طراز ہیں:

’’انھیں(سیّد ایوب علی رضوی ﷫) کا بیان ہے کہ علامۂشیریں زباں واعظِ خوش بیاں مولانا مولوی حاجی قاری شاہ عبدالعلیم صاحب صدّیقی قادری رضوی میرٹھی حرمینِ طیبین سے واپسی پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مندرجۂ ذیل منقبت نہایت ہی خوش آوازی سے پڑھ کر سنائی:

تمھاری شان میں جو کچھ کہوں اُس سے سوا تم ہو
قسیمِ جامِ عرفاں، اے شہِ احمد رضا! تم ہو
غریقِ بحرِ الفت مستِ جامِ بادۂ وحدت
محبِّ خاص منظورِ حبیبِ کبریا تم ہو
جو مرکز ہے شریعت کا مدار اہلِ طریقت کا
جو مرکز ے حقیقت کا وہ قطب الاولیا تم ہو
یہاں آ کر ملیں نہریں شریعت اور طریقت کی
ہے سینہ مجمع البحرین ایسے رہ نما تم ہو
حرم والوں نے مانا تم کو اپنا قبلہ و کعبہ
جو قبلہ اہلِ قبلہ کا ہے وہ قبلہ نما تم ہو
مزیّن جس سے ہے تاجِ فضیلت تاج والوں کی
وہ لعلِ پُر ضیا تم ہو وہ دُرِّ بے بہا تم ہو
عرب میں جا کے اِن آنکھوں نے دیکھا جس کی صولت کو
عجم کے واسطے لارَیب وہ قبلہ نما تم ہو
ہیں سیّارہ صفت گردش کناں اہلِ طریقت یاں
وہ قطبِ وقت اے سرخیلِ جمعِ اولیا تم ہو
عیاں ہے شانِ صدّیقی تمھاری شانِ تقویٰ سے
کہوں اتقیٰ نہ کیوں کر جب کہ خیرالاتقیا تم ہو
جلال و ہیبتِ فاروقِ اعظم آپ سے ظاہر
عَدُوُّ اللہ پر اک حربۂ تیغِ خدا تم ہو
اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفّار کے ہو سر بَہ سر مظہر
مخالف جس سے تھرّائیں وہی شیرِ وغا تم ہو
تمھیں نے جمع فرمائے نکات و رمزِ قرآنی
یہ ورثہ پانے والے حضرتِ عثمان کا تم ہو
خلوصِ مرتضیٰ، خُلقِ حَسن، عزمِ حسینی میں
عدیم المثل یکتائے زمن اے باخدا تم ہو
تمھیں پھیلا رہے ہو علمِ حق اکنافِ عالم میں
امامِ اہلِ سنّت نائبِ غوث الوریٰ تم ہو
بھکاری تیرے در کا بھیک کی جھولی ہے پھیلائے
بھکاری کی بھرو جھولی گدا کا آسرا تم ہو
وَ فِیْٓ أَمْوَالِھِمْ حَقٌّ ہر اک سائل کا حق ٹھہرا
نہیں پھرتا کوئی محروم ایسے باسخا تم ہو
عؔلیمِ خستہ اک ادنیٰ گدا ہے آستانے کا
کرم فرمانے والے حال پر اُس کے، شہا! تم ہو

جب مولانا اشعار پڑھ چکے تو حضور(اعلیٰ حضرت) نے ارشاد فرمایا: مولانا! میں آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ (اپنے عمامہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے جو بہت قیمتی تھا۔ فرمایا) اگر اس عمامہ کو پیش کروں، تو آپ اس دیارِ پاک سے تشریف لا رہے ہیں، یہ عمامہ آپ کے قدموں کے لائق بھی نہیں۔ البتہ میرے کپڑوں میں سب سے بیش قیمت ایک جُبّہ ہے، وہ حاضر کیے دیتا ہوں؛ اور کاشانۂ اقدس سے سرخ کاشانی مخمل کا جُبّۂ مبارکہ لاکر عطا فرما دیا، جو ڈیڑھ سو روپے سے کسی طرح کم قیمت کا نہ ہوگا۔ مولانا ممدوح نے سرو قد کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ پھیلا کر لے لیا۔ آنکھوں سے لگایا، لبوں سے چوما، سر پر رکھا، سینے سے دیر تک لگائے رہے۔‘‘

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi