امام احمد رضاخاں اور اُن کے رفقاء کی سیاسی بصیرت


تحریر: حکیم محمد موسیٰ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ

۱۸۵۷ء کے ہنگامۂ رستاخیز کے بعد ہندوؤں کی متعصبانہ، مسلم کُش سیاست نے ایک ٹمٹماتے ہوئے ستارے کی طرح اپنا سفر شروع کیا۔

لیکن بیسویں صدی کے آغاز تک ، برِعظیم پاک وہند کے مطلع سیاست پر، ہندولیڈروں کااثر و رسوخ، آفتاب درخشاں بن کر چمک رہاتھا۔ گاندھی کی نقاب پوش سیاست نے ہندومسلم اتحاد کے پردے میں، مسلمانوں کوسیاسی، دینی اور تہذیبی اعتبار سے قلاّ ش کرکے رکھ دینے کے جومنصوبے تیّار کئے تھے، بہت کم زعماء، ان کے مضمرات سے، بروقت آگاہ ہوسکے تھے۔ تاہم علمائے دین کے بعض حلقوں میں، اس پرشدید اضطراب محسوس کیاجانے لگا۔ اگرچہ دوسری طرف بھی علماء ہی کی ایک کثیر تعداد تھی، جواپنے مدارس ومکاتب اور تبلیغی اداروں کی تمام ترقوّ توں سمیت، ہندولیڈروں کی دعوت پر لبیّک کہہ رہی تھی اور ہندو مسلم اتحاد کی لَے میں، اپنے دینی وملیّ شعائر کےمعاملہ میں بھی کمزوری دکھائی جارہی تھی۔ مگر یہ حقیقت ہے، کہ علماء ہی کی صفوں میں ایسے مردان ِ حق بھی موجود تھے۔ جنہوں نے اس طوغوت کے سر پر ضرب کاری لگائی۔ اس سلسلے میں علمائے بریلی، حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرُّہٌ العزیز اوران کے بعض رفقاء مثلاً مولانا سیّد سلیمان اشرف اور مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی خدمات بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ برّ ِعظیم میں تحریک آزادی کی تاریخ، اورمسلمانان پاک و ہند کی تہذیبی وثقافتی تاریخ میں دل چسپی لینے والے فضلاء اور طلبہ کےلئے، اس گوشے میں ایک اہم خزانہ ابھی تک محفوظ ہے۔ جسے تاحال منظر عام پرلانے کی طرف کماحقہ توجہ نہیں کی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے اسباب کی نشاندہی ممکن ہے، ہم اس موضوع پرکسی تفصیلی مقالے میں، روشنی ڈالیں گے سرِدست ان سطور میں، مذکورہ بالا علماء کی بعض تحریرات پیش کرنا مقصود ہے۔ تاکہ اس موضوع پرکام کرنے والے اصحاب، متعلقہ ماخذ کوسامنے رکھ کر، اس کام کوآگے بڑھاسکیں۔

Description: F:\My System Data [E]\1. ZIA-E-TAIBA WORK\Mudassir\1 PSD files\1 Mahnaama Mujalla Zia-e-Taiba\14 October Safar ul Muzaffar\Design\Molana-Shah-Ahmed-Raza-khan-or-un-k-rufaqa.png

سب سے پہلے مولانا سیّد سلیمان اشرف کی تالیف ’’النور‘‘ کے آغاز سے ایک اقتباس پیش کیاجاتا ہے۔ مولانا سید سلیمان اشرف مرحوم مولانا شاہ احمد رضاقدس سرّہ کے خلفا میں سے تھے۔ مولانا کی یہ کتاب ۱۹۲۱ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کومسلم یونیورسٹی اسٹیٹیوٹ علی گڑھ نے شائع کیاتھا اوراس کے ٹائٹل پر یہ الفاظ درج ہیں: ’’حالات حاضرہ پرایک مصلحانہ نظر‘‘، مولانا موصوف نے تین چار پیروں میں، ۱۸۵۷ء سے اپنے دور تک کی، ہندو لیڈروں کی شاطرانہ سیاست کاجائزہ لیا ہے، لکھتے ہیں:

’’سن ستّاون۱۹۵۷ء کا ہنگامہ اور ستارۂ صلاح وفلاح مسلمانان ِہند کاغروب، مفہوم مرادف ہے۔ مسلمانوں کے اس تنزّل سے، ان کی ہمسایہ قو م نے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش شروع کی اور بہت جلد مسلمانوں کے املاک اور دیگر جاہ وعزّت کے سامان اہلِ ہنود کے دستِ تصرّف میں آگئے ہندوؤں کو جب اس طرف سے ایک گونہ اطمینان پیدا ہوگیا۔ تب انہوں نے مسلمانوں کے مذہب پرحملہ آوری شروع کی۔ مظالم وجفا کاری کاایک کوہ آتش فشاں تھا، جس سے انواع واقسام کے شعلے پھٹ کرنکلتے اور جابجا مسلمانوں کی غیرت وحمیّت کو، ان کے حقوق کے ساتھ خاکِ سیاہ کرنا چاہتے تھے۔

یوں تومسلمانوں کاہررکنِ مذہبی اہل ہنود کوچراغپا کردینے کاکافی بہانہ تھا، لیکن بقرعید کے موقع پرگائے کی قربانی سے جو تلاطم اور ہیجان ان میں پیداہوتاان کااندازہ کرنابھی دشوارہے۔ لیکن غیرت مند مسلمان اپنے دینی وقار اور مذہبی استحقاق کے قائم رکھنے میں ہمیشہ استقلال و ہمت سے ان کی تمگاریوں کی مدافعت کرتے رہے۔

محض سفّا کی وبے رحمی کوچند سال کے تجربہ نے جبکہ ناکافی ثابت کیا تواہلِ ہنود تدابیر و حیل کی آمیزش اپنی جفا کاری میں ضروری سمجھ کر تد لیس و تلبیس سے بھی کام لینے لگے۔ چنانچہ ۱۲۹۸ھ میں اہل ہنود نے ایک عبارتِ استفتامرتب کرکے بنام زید و عمر مختلف شہروں سے متعدد علمائے کرام کی خدمت میں روانہ کی۔

استفتا میں اس امر پر زور دیاگیا تھا کہ موقع بقر عید پر گائے کی قربانی جبکہ موجب فتنہ وفساد ہے اور امن عامہ میں ا س کی وجہ سے خلل آتا ہے، اگر مسلمان گائے کی قربانی موقوف کردیں توکیا مضائقہ ہے۔

حضرات علماء نے نہایت مدلّل طریقہ پراس کایہی جواب تحریر فرمایا کہ شریعت نے جواختیار عطا فرمایاہے، اس سے فائدہ اٹھانے کاہمیں حق حاصل ہے خوف فتنہ ہوتوحکومت کی قوت کو متوجہ کرنا چاہیئے۔ بہ پاسِ خاطر ہنود یاخوفِ ہنود اپنے دینی حق سے باز رہنا ہر گز روانہیں ۔

دوتین برس بعد پھراسی قسم کااستفتاجاری ہوا اورپھر دربار شریعت سے یہی فتویٰ صادر ہوا۔ مولانا المفتی احمد رضاخاں صاحب بریلوی کارسالہ ’’انفس الفکر فی قربان البقر‘‘ ۱۲۹۸ھ کاتصنیف ہےاسے ملاحظہ فرمائیے، مجموعہ فتویٰ مولوی عبدالحی صاحب مرحوم مطالعہ کیجئے ۔ ساری حقیقت واضح ہوجائے گی، اس کے بعد ۱۳۲۹ھ مین پھر اسی سوال کااعادہ کیاگیا اور دارالافتاء سے اُسی اگلے جواب کااضافہ فرمایاگیا۔

گوپااور مئو میں جب ہندوؤں نے ایک حشر عظیم بپاکیا اور بعد قتل وغارت گری اور بے حرمتئیِ مساجد اس کوشش میں سرگرم ہوئے کہ حُکاّ م کچہری پر یہ ثابت کریں کہ قربانی گاؤ سے ہندوؤں کی دل آزادی ہوتی ہے اور گائے کی قربانی حسبِ اجازت مذہب اسلام نہیں۔ اس وقت علاّمہ چریاکوٹی، مولانا محمد فاروق صاحب عباسی نےایک رسالہ چھپواکر شائع فرمایا، جس میں دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے اچھی طرح ثابت فرمادیا کہ اہلِ ہنود کاادعائے باطل محض بے بنیادہے۔ نیز واقعۂِ مئو کی مستند تاریخ ایک مسدّس کی نظم فرمائی جوہندوؤں کےمظالم اور مسلمانوں کی مظلومیت واستقامت کی ہوبہو تصویرہے۔ یہ دونوں رسالے چھپ کر ملک میں شائع ہوچکے ہیں۔

اشارات صدر سے صرف اس قدر ثابت کرنا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے شعار ِ دین کی توہین اورارکانِ مذہبی کے نیست دنا بود کرنے میں اپنی پوری جسمانی، مالی اور دماغی قوّت گوناگوں طور پرصرف کرنے میں پچاس برس سے مسلسل ساعی وکوشاں ہیں۔ لیکن علمائے کرام اور عامہ مسلمین آج تک ان کے دامنوں میں پناہ لینے سے اظہار بیزاری کرتے ہیں۔‘‘ (النور۔ ص۱۔ ۳)

اس کے بعد آگے چل کر اس دور کانقشہ کھینچا ہے۔ جبکہ کانگرس کے حامی علماء کی ’’مساعئِ جمیلہ ‘‘ سے مسلمانوں کو رام لیاگیا تھا اور ہندو تہذیب کے شعا ئر، مسلمانوں کے دینی نشانات پر غلبہ و تفوق پارہے تھے اوریہ سب کچھ نام نہاد علماء کی سرپرستی اور نگرانی میں کیاجارہاتھا۔

’’گائے کی قربانی مسلمانوں سے چھڑائی جاتی ہے۔ موحدین کی پیشانیوں پر قشقہ، جوشعارِ شرک ہے، کھینچا جاتاہے۔مساجد اہلِ ہنود کی تفرج گاہیں، مندر مسلمانوں کاایک مقدس معبد ہے۔ ہولی شعار ِاسلام ہے جس میں رنگ پاشی اور وہ بھی خاص اہلِ ہنود کے ہاتھوں سے جبکہ وہ نشہ شراب میں بدمست ہوں عجب دل کش عبادت ہے۔ بتوں پر ریوڑیاں چڑھانا بار پھولوں سے انہیں آراستہ کرنا پھولوں کاتاج اصنام کے سروں پر رکھنا خالص توحید ہے۔ یہ سارے مسائل ان صورتوں میں اس لئے ڈھل گئے کہ ہندوؤں کی دل نوازی اور استرضا سے زیادہ اہم نہ توحید ہے نہ رسالت نہ معاد۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ !‘‘ (النور۔ ص۸)

حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرہٗ نے اس زمانے میں اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’المحجۃ المؤتمنۃ ‘‘ تالیف فرمائی تھی۔ اس کا حسب ِ ذیل اقتباس یہ ظاہر کرے گا۔ کہ بعض مسلمان زعما، ہندو مسلم اتحاد کے پردے میں دراصل ہند وتہذیب کی غلامی کے راستے پرگامزن ہوچکے تھے:

’’جب ہندوؤں کی غلامی ٹھہری، پھر کہاں کی غیرت اور کہاں کی خود داری وہ تمہیں ملچھ جانیں، بھنگی مانیں، تمہارا پاک ہاتھ جس چیز کولگ جائے گندی ہوجائے سود ابیچیں تودور سے ہاتھ میں ڈال دیں، پیسے لیں تودور سے یاپنکھا وغیرہ پیش کرکے اس پر رکھوالیں، حالانکہ بحکم قرآن خود وہی نجس ہیں اور تم ان نجسوں کومقدس مطہر بیت اللہ میں لے جاؤ، جوتمہارے ماتھا رکھنے کی جگہ ہے، وہاں ان کے گندے پاؤں رکھواؤ، مگر تم کواسلامی حس ہی نہ رہا، محبتِ مشرکین نے اندھا بہرا کردیا۔ ان باتوں کاان سے کیاکہنا جن پر ’’حبک الشئی یعمی ویصم ‘‘ کارنگ بھرگیا، سب جانے دوخدا کومنہ دکھاتاہے یاہمیشہ مشرکین ہی کی چھاؤں میں رہنا ہے، جواز تھا تویوں کہ کوئی کافر مثلاً اسلام لانے یااسلامی تبلیغ سننے یااسلامی حکم لینے کے مسجد میں آئے یااس کی اجازت تھی کہ خود سرمشرکوں نجس بت پرستوں کومسلمانوں کاواعظ بناکر مسجد میں لے جاؤ؟ اسے مسندِ مصطفی ﷺپر بٹھاؤ؟ مسلمانوں کونیچے کھڑا کرکے ، اس کاوعظ سناؤ، کیااس کے جواز کی کوئی حدیث یاکوئی فقہی روایت تمہیں مل سکتی ہے؟ حاشاثم حاشاللہ انصاف، کیا یہ اللہ و رسول سے آگے بڑھنا، شرع مطہر پرافترا گڑھنا، احکامِ الہٰی دانستہ بدلنا، سوئر کوبکری بتاکر نگلنا نہ ہوگا۔ ‘‘( المحجۃ الموتمنۃ ۔ص۸۴)

فاضل بریلوی کے بیان فرمودہ حقائق کی ایک جھلک میرے بہت سے بزرگوں اور دوستوں نے اس وقت دیکھی جبکہ گروہ علماء نے مسٹر گاندی کوجامع مسجد شیخ خیرالدین امرتسر میں لاکر منبر رسول پربٹھایااور خود اس کے قدموں میں بیٹھے اور یہ دعا کی گئی کہ ’’اے اللہ توگاندھی کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔‘‘ (معاذ اللہ )

بات یہاں تک ہی نہیں رہی تھی۔ اُس وقت کے ایک جید عالم نےیہ کہہ دیا ؎

عمر ے کہ بآیات واحادیث گذشت
رفتی ونثار ِ بت پرستی کردی

ایک بہت بڑے لیڈرنے یہ گوہرافشانی فرمای کہ ’’زبانی جے پکارنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ اگرتم ہندوبھائیوں کوراضی کروگے تو خدا کوراضی کروگے‘‘۔ بھائیو! خدا کی رسّی کو مضبوط پکڑو اگر ہم اس رسّی کومضبوط پکڑلیں گے توچاہیے دین ہمارے ہاتھ سے جاتارہے مگردنیا ہمیں ضرور ملے گی’’ایک جلسہ میں یہ کہاگیا‘‘ اے اللہ ہم سے ایک نیک کام ہوگیا ہےکہ میں اور مہاتماگاندھی یقینی بھائی ہوگئے ہیں۔ (النور۔ص۔۲۲۶۔۲۲۷)

اس خوفناک سازش کے خلاف سب سے پہلے جس نے صد ئے احتجاج بلند کی وہ فاضل بریلوی کی ذات گرامی اور ان کے خلفاء تھے۔ مسٹر گاندھی نے علماء پر جوفسوں کردیاتھا۔ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ کواس کے تعلق کااندازہ صرف اس واقعے سے بخوبی ہوسکتاہےکہ انہوں نے اپنی وفات حسرت آیات کےوقت جو وصایاارشاد فرمائے ان میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ گاندھی کے پیرکاروں سے بچویہ سب بھیڑئیے ہیں تمہارے ایمان کی تاک میں ہیں ان کے حملوں سے اپناایمان بچاؤ۔

حضرت فاضل بریلوی اور ان کی تبلیغ سے سعید الفطرت علما ء نے گاندھی کی پیروی ترک کرکے اعلانیہ توبہ کی۔ان علماء میں سے حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی﷫خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ پھر ان کے مرید مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی۔ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ العزیز حضرت مولانا شاہ احمد رضا نوراللہ مرقدہ کے ارشد خلفاء میں سے تھے۔ انہوں نے بھی ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ، ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریرفرمایاتھا۔ جس میں تُرکوں کی سلطنت کے مبتلائے مشکلات ہونے، اور اس کے ساتھ برِعظیم کے مسلمانوں میں دردوکرب کی ایک لہر پیدا ہونے کوپس منظر میں رکھتے ہوئے ایک دردمند اور بالغ نظر مبصر کی طرح حالات کاجائزہ لیاہے اور مسلمان لیڈروں کوان کی غلط روش پر متنبہ کیا ہے:

’’حالاتِ حاضرہ میں، سلطنتِ اسلامیہ اور مقامات مقدسہ کامعاملہ سب سے اہم ہے۔ جس نے تمام عالمِ اسلام کوبے چین کردیاہے اور اسلامی دنیا اضطراری یااختیاری طو ر پر حرکت میں آگئی ہے، جوش کے تلاطم کی کیفیت نمایاں ہے اور نوعمر بچّہ سے لے کر کبیر السَّن شیخ تک ہر شخص ایک ہی دردکاشا کی اورایک ہی صدمہ کی فریادی نظرآتاہے۔

سلطنتِ اسلامیہ کی تباہی وبربادی اور مقاماتِ مقدسہ بلکہ مقبوضاتِ اسلام کامسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانا ہرمسلمان کواپنی اور اپنے خاندان کی تباہی وبربادی سے زیادہ اور بدرجہ زیادہ شاق اور گراں ہے اور اس صدمہ کا جس قدر بھی درد ہوکم ہے اور اس درد سے جس قدر بے چینی ہوتھوڑی ہے، مسلمانوں کااقتدار خاک میں ملتا ہے ان کی سلطنت کے حصے بخرے کئے جاتے ہیں۔ ارضِ اسلام کاچپّہ سے چپّہ لڑجاتا ہے قیامت نماز لازل بِلادِ اسلامیہ کوتہ دبا کر ڈالتے ہیں مقاماتِ مقدسہ کی وہ خاک پاک جواہلِ اسلام کی چشمِ عقیدت کےلئے طوطیا سے بڑھ کر ہے کفّار کے قدموں سے روندی جاتی ہے۔ حرمین محترمین اور بلادِ طاہرہ کی حرمت ظاہری طو ر پر خطرہ میں پڑجاتی ہے مسلمانوں کے دل کیوں پاش پاش نہ ہوجائیں ان کی آنکھیں کیاوجہ ہے کہ خون کے دریانہ بہائیں۔ سلطنت اسلامیہ کی اعانت و حمایت خادم الحرمین کی مدد ونصرت مسلمانوں پر فرض ہے۔ اسلام نے تمام مسلمانوں کوتن واحد کے اعضاء کی طرح مربوط فرمایاہے ایک عضو کی تکلیف کااثر دوسرے اعضاء پر پڑتاہے اور اعضائے رئیسہ کے صدمہ سے تمام بدن متاثر ہوجاتاہے ؎

چوعضو سے بدر آورد روزگار
دگر عضو یارانماند قرار

عالمِ اسلام کے ہر متنفس کاصدمہ دوسرے مسلمان کومحسوس ہونا چاہیئے۔ چہ جائیں کہ سلطان المسلمین کاصدمہ خاد م الحرمین کادرد۔

دوسرے ممالک میں کیاہورہا ہے یہ توہمیں معلوم نہیں۔ لیکن ہندوستان میں مسلمان برابر جلسہ کرکے پُرزور تقریر میں جوش کا اظہار کررہےہیں۔ سلطنت برطانیہ سے ترکی اقتدار کے برقرار رکھنے کی درخواستیں کی جاتی ہیں۔ ترکی مقبوضات واپس دینے کے مطالبے کئے جاتے ہیں۔ اسی مقصد کےلئے رزولیوشن پاس ہوتے ہیں۔ وفد بھیجے جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ تدبیریں کہاں تک کامیاب ہوسکتی ہیں لیکن امید کے لمبے لمبے ہاتھ دل آزردہ مسلمانوں کی گردنوں میں حمائل ہوکر انہیں جابجا لئے پھرتے ہیں، خدا کامیاب کرکے مسلمانوں نے ان مساعی میں ضروری سمجھا ہے کہ ہندوؤں کواپنے ساتھ شریک کریں اور اپنا ہم آواز بنائیں تاکہ اُن کی صدامیں زدر آئے اور سلطنت ان کی درخواست کان لگاکر سُنے۔ اگرچہ یہ مسلمانوں کی شان کے خلاف ہے ؎

حقاکہ باعقوبت دوزخ برابر است
رفقن بہ پائمردی ہمسایہ دربہشت

لیکن مذہب کافتویٰ اس کوممنوع اور ناجائز نہیں قرار دیتا اور اس قدر جدوجہد جواز میں رہتی ہے۔

لیکن صورتِ حالات کچھ اور ہے اگر اتناہی ہوتاکہ مسلمان مطالبہ کرتے اورہندو ان کے ساتھ متفق ہوکر بجاہے اوردرست ہے، پکارتے، مسلمان آگے ہوتے اور ہندو ان کے ساتھ ہوکران کی موافقت کرتےتو بے جانہ تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہندو امام بنے ہوئے آگے آگے ہیں اورمسلمان آمین کہنے والے کی طرح ان کی صداء کےساتھ موافقت کررہے ہیں۔ پہلے مہاتماگاندھی کاحکم ہوتا ہے اس کے پیچھے مولوی عبدالباری کافتویٰ مقلّد کی طرح سرنیاز خم کرتا چلا جاتاہے ہندو آگے بڑھتے ہیں اور مسلمان ان پیچے پیچھے اپنادین و مذہب ان پر نثار کرتے چلے جاتے ہیں۔

پہلے توہندوؤں نے سود کے پھندوں میں مسلمانوں کی دولتیں اور جاگیریں لے لیں اب وہ مفلس ہوگئے اور کچھ پاس نہ رہا تو مقامات مقدسہ اورسلطنت اسلامیہ کی حمایت کی آڑ میں مذہب سے بھی بےدخل کرنا شرورع کردیا۔ نادان مسلمانوں نے جس طرح دریادلی کےساتھ جائیدادیں لٹائیں آج اسی طرح مذہب فداکر رہے ہیں، کہیں ہندوؤں کی خاطر سے قربانی اور گائے کا ذبیحہ ترک کرنے کی تجاویز پاس ہوتی ہیں ان پرعمل کرنے کی صورتیں سوچی جاتی ہیں۔ اسلامی شعائرمٹانے کی کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ کہیں پیشانی پرقشقہ کھینچ کرکفر کاشعار (ٹریڈ مارک) نمایاں کیاجاتاہےکہیں بتوں پرپھول اور ریوڑیاں چڑھاکر توحید کی دولت برباد کی جاتی ہے۔ معاذاللہ۔

کروڑ سلطنتیں ہوں تودین پرفدا کی جائیں۔ مذہب کسی سلطنت کی طمع میں برباد نہیں کیاجاسکتا، مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے بہت خوب فرمایاکہ لعنت ہے اس سلطنت پرجو دین بیچ کرحاصل کی جائے۔ ترکی سلطنت کی بقا کےلئے مسلمان کفر کرنے لگیں شعائر اسلام کومیٹ دیں۔ لاحول ولاقوۃ الاّ باللہ اسلام ہی کے صدقہ میں تواس سلطنت کی حمایت کی جاتی ہے ورنہ ہم سے اور ترکوں سے واسطہ مطلب۔ جوکوشش کی جائے اپنادین محفوظ رکھ کر کی جائے۔ مگر ؎

اِذَا کاَ نَ الْغُرَابُ دَلِیْلَ قَوْ مٍ سَیَھْدِیْھِمْ طَرِیْقَ الْھالِکِکْنَ

جب ہندو پیشوا ہوں اورمسلمان ان کی کورانہ تقلید پرکمر باندھیں پھر مذہب کامحفوظ رکھنا کیوں کر ممکن ہے۔

مسلمانوں کی نادانی کمال کوپہنچ گئی۔ نصاریٰ کے ساتھ ہوئے تو اندھے ہوکر موافقت بلاد اسلامیہ میں جاکر لڑے، مسلمانوں پرتلواریں چلائیں ان کے ملک ان سے چھین کرکفار کودلائے اب اس خود کردہ کاعلاج کرنے چلے اور مشتِ از جنگ یاد آیا توہندوؤں کی غلامی میں دین برابر کرنے میں تُل گئے۔‘‘

(حیات صدرالافاضل ۔ ص ۔ ۹۹۔۔۱۰۲)

ان چند اقتباسات سے صرف یہ دکھانا مقصود ہے۔کہ ملک کے سیاسی وملیّ مسائل میں، حضرت مولانا شاہ احمد رضاخان بریلوی قدس سرہٗ اور ان کے رفقاء کا موقف کیا تھا۔ اور بالخصوص متحدہ ہندوستانی قومیت کی تحریک کاردِّ عمل ان علماء کے ہاں کس شکل میں رونما ہوا۔ حضرت مولانا بریلوی نے گاندھی کے فسوں کوتوڑنے کی کوششیں کی تھیں اور اپنےرفقاء وخلفاء کی جس انداز میں تربیت کی تھی اس کانتیجہ ہےکہ حضرت کے تلامذہ ۔ خلفاء اور متبعین نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیا۔ حضرت کے خلفاء میں سے صدرالافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین اور حضرت سید محمد محدث کچھوچھوی رحمہما اللہ نے تحریک پاکستان کوکامیاب کرنے کے لئے آل انڈیاسنی کانفرس کی بنیاد رکھی اور پاک و ہند کے ہر شہر میں اس کی شاخیں قائم کیں۔ ۱۹۴۶ء میں بنارس میں تائید تحریک پاکستان کی خاطر ایک کانفرس منعقد کی، جس میں پانچ ہزار کی کثیر تعداد میں علماء ومشائخ شریک ہوئے اور سب نے پاکستان بنانے کےلئے اپنی زندگیوں کووقف کرنے کاعہد کیا۔ مولانامراد آبادی توحمایت تحریک پاکستان میں اس قدر سرگرمی دکھارہے تھےکہ اسکی مثال محال ہے۔ مولانا اپنے ایک خط میں مولانا ابوالحسنات قادری علیہ الرحمۃ کولکھتے ہیں:

’’پاکستان کوتجویز سے جمہوریت اسلامیہ‘‘ (آل انڈیا سُنّی کانفرس کادوسرا نام ) کوکسی طرح دست بردار ہونا منظور نہیں، خودجناح اس کے حامی رہیں یانہ رہیں (حیات صدر الافاضل صفحہ ۱۸۶)

غرض کہ حضرت فاضل بریلوی اعلی اللہ مقامہ پاکستان میں بسنے والے کل مسلمانوں کے محسن ہیں۔ کہ انہوں نے بروقت گاندھی کے خطرناک عزاعم کوآگاہ کیا اور سوادِاعظم کے علماء و مشائخ کے ایک عظیم گروہ کی ایسی تربیت کرگئے کہ انہوں نے نہایت خلوص ودیانت کے ساتھ تحریک پاکستان کوکامیاب کیا۔

آخر میں یہ عرض کرناضروری سمجھتا ہوں کہ میرایہ مضمون ہر لحاظ سے نامکمل اور تشنہ ہے۔ بہرحال میں نے مورخین کوتحریک پاکستان کے ایک فراموش شدہ مگر اہم باب کی طرف توجہ دلادی ہے۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi