12 ربیع الاول تاریخِ ولادت یا تاریخِ وفات


مؤلف: مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

الحمد للہ الذی لم یلد ولم یولد والصلٰوۃ والسلام علی والدوماولدالذی من کان نبیاوآدم بین الروح والجسد علی الہ وصحبہ الذین عزرو احبیب الصمد اما بعد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وذکرھم بایام اللہ

ترجمہ: اور انہیں اللہ کے دن یاد دلا۔ [1]

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مشہور مفسر امام خازن متوفی ۷۴۱ھ فرماتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما، حضرت ابی بن کعب ﷜ حضرت امام مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت قتادہ ﷜ ودیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے دنوں سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعامات فرمائے ہیں۔ [2]

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بے شمار احسانات فرمائے انعامات فرمائے ہیں اگر ہم شمار کرناچاہیں تو شمار نہیں کرسکتے مگر کسی نعمت واحسان پر رب کائنات نے احسان نہیں جتلایا مگر جب سب سے عظیم نعمت اپنے پیارے حبیب کریم رؤف الرحیم ﷺ کو اس دنیا میں بھیجا تو رب کائنات نے فرمایا:

لقد من اللہ علی المؤمنین اذبعث فیہم رسولا من انفسہم یتلو علیہم اٰیٰتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتب والحکمۃ. [3]

بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور نہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔

تو معلوم ہوا جب حضور ﷺنعمتِ عظمیٰ ہیں تو جس دن ان کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی اس دن کو بطور یادگار منانا قرآن سے ثابت ہوا نیز رب کائنات ارشاد فرماتا ہے۔

Description: F:\My System Data [E]\1. ZIA-E-TAIBA WORK\Mudassir\1 PSD files\1 Mahnaama Mujalla Zia-e-Taiba\Monthly 2018\11 November Rabi ul Noor 1440\Design\12-rabi-ul-awwal-wafat-ya-wiladat.png واما بنعمۃ ربک فحدث.

ترجمہ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ [4]

سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہیں تو اب اس نعمت کا خوب خوب چرچا کرنا چاہیے۔

اسی لیے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے عوام ربیع الاول شریف بالخصوص ۱۲ ربیع الاول شریف کو جشن عید میلاد النبی ﷺمناتے ہیں جو کہ محدثین، مفسرین، ائمہ اسلام کا طریقہ ہے اور اس پر تمام کا اجماع ہے۔

بلکہ بعض ائمہ اسلام جن میں امام المحدثین فی الھند، برکۃ رسول اللہ ﷺ فی الھند، محقق علی الاطلاق حضرت سیّدنا ومولانا شیخ عبد الحق محدث دہلوی ﷜ (جن کو ہر رات بلاناغہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شرف نصیب ہوتا تھا۔ الاضافات الیومیہ از: اشرف علی تھانوی) اور امام المحدثین، شارح بخاری علامہ احمد بن محمد قسطلانی شافعی﷫ فرماتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماہ ولادت کی تمام مبارک راتوں کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض وعناد ہے۔ [5]

لیکن بعض منکرین جشن عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر سادہ لوح مسلمانوں کو اس بات پر اکساتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول شریف حضور نبی کریم ﷺ کی تاریخ ولادت نہیں بلکہ تاریخ وفات ہے اس پر خوشی کا اظہار کرنے کے بجائے غم کا اظہار کرنا چاہئے لہٰذا اس بارے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں۔

حضور نبی کریمﷺ کی تاریخ ولادت

حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت بقول جمہور و مشہور بارہ ربیع الاول شریف بروز پیر ہوئی۔

چنانچہ حافظ ابوبکر ابن ابی شیبہ متوفی ۲۳۵ھ سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

عن عفان عن سعید بن مینا عن جابر وابن عباس انہما قال ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول.

عفان سے روایت ہے وہ سعید بن مینا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ [6]

اس حدیث کی سند میں پہلا راوی عفان ہے جس کے بارے میں محدثین نے فرمایا کہ عفان ایک بلند پایہ امام ثقہ اور صاحب ضبط واتقان ہیں۔ [7]

دوسرے راوی سعید بن مینا بھی ثقہ ہیں۔ [8]

ان دو جلیل القدر اور فقیہہ صحابیوں کی صحیح الاسناد روایت سے ثابت ہوا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت ۱۲ ربیع الاول کوہی ہوئی تھی۔

مشہور محدث ومفسر، مؤرخ علامہ ابن کثیر متوفی ۷۷۴ھ لکھتے ہیں:

وقیل لثنتی عشرۃ خلت منہ نص علیہ ابن اسحاق ورواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ عن عفان عن سعید من مینا عن جابروابن عباس انہما قالا ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول وفیہ بعث وفیہ عرج بہ الی السماء وفیہ ھاجر وفیہ مات وھذا ھو المشہور عند الجمہور واللہ اعلم.

اور کہا گیا ہے کہ بارہ کو ولادت ہوئی اس پر امام ابن اسحاق کی نص ہے اور امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں حضرت عفان سے وہ حضرت سعید بن مینا سے کہ حضرت جابر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ عام الفیل میں بارہ ربیع الاول شریف بروز پیر پیدا ہوئے اور اس میں مبعوث ہوئے اسی (پیر) کو معراج کی اسی (پیر ) کو ہجرت فرمائی اور اسی میں (پیر) وصال فرمایا اور یہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے واللہ اعلم۔ [9]

محدث علامہ ابن جوزی متوفی ۵۹۷ھ فرماتے ہیں۔

اتفقواعلی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین فی شہر ربیع الاول عام الفیل واختلفو افیما مضٰی من ذلک الشہر لولادتہ علی اربعۃ اقوال … والرابع لاثنتی عشرۃ خلت منہ.

اس بات پر تمام متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت عام الفیل میں پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس کے تاریخ میں اختلاف ہے اور اس بارے میں چار اقوال ہیں چوتھا قول یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ولادت باسعادت ہوئی۔ [10]

مشہور محدث علامہ عبدالرحمٰن ابن جوزی متوفی ۵۹۷ھ فرماتے ہیں:

ابن اسحاق نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ عام الفیل (ہاتھی والے سال یعنی ابرھہ کی ہلاکت اور اس کے لاؤ لشکر کی بربادی والے سال میں) ربیع الاول کی بارھویں رات کے بعد ہوئی۔ [11]

علامہ امام شہاب الدین قسطلانی شافعی شارح بخاری متوفی ۹۲۳ھ فرماتے ہیں:

وقیل لعشر وقیل لاثنی عشر وعلیہ عمل اھل مکۃ فی زیارتہم موضع مولدہ فی ھذاالوقت … والمشہور انہ ولد یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول وھو قول ابن اسحاق وغیرہ.

اور کہا گیا ہے دس ربیع الاول کو ولادت ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بارہ ربیع الاول کو ولادت ہو ئی اور اسی پر اہل مکہ ولادت کے وقت اس جگہ کی زیارت کرتے ہیں … اور مشہور یہ ہے کہ آپ ﷺبارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے اور یہ ابن اسحاق وغیرہ کا قول ہے۔ [12]

علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی متوفی ۱۱۲۲ھ فرماتے ہیں:

وھو قول محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی وقول غیرہ قال ابن کثیر وھو المشہور عند الجمہور وبالغ ابن الجوزی وابن الجزار فنقلافیہ الاجماع وھوالذی علیہ العمل.

اور (بارہ ربیع الاول ولادت ) کاقول محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی کاہے اور ان کے علاوہ کا قول بھی ہے ابن کثیر نے کہا یہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے امام ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اسی پر عمل ہے۔ [13]

علامہ امام نور الدین حلبی متوفی ۱۶۲۴ء فرماتے ہیں:

وکان ذلک لمضی ثنتی عشرۃ لیلۃ عصنت من شہر ربیع الاول … قال وحکی الاجماع علیہ وعلیہ العمل الآن فی الامصار خصوصاً اھل مکۃ فی زیارتہم موضع مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم.

سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت بارہ ربیع الاول شریف کو ہوئی ..... اس پر اجماع ہے اور اب اسی پر عمل ہے شہروں میں خصوصاً اہل مکۃ اسی دن سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کی جگہ پر زیارت کے لیے آتے ہیں۔ [14]

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مجدد دین وملّت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل ومحقق بریلوی ﷜ ولادت کی تاریخ کے متعلق فرماتے ہیں:

سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا اس میں اقوال بہت مختلف ہیں دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس سات قول ہیں مگر اشہر واکثر وماخوذ ومعتبر بارھویں ہے مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں کمافی المواہب والمدارج (جیسا کہ مواہب اللدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے ) اور خاص اس مکان جنت نشان میں اسی تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے۔

علامہ قسطلانی وفاضل زرقانی فرماتے ہیں:

المشہور انہ صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول وھو قول محمد بن اسحاق امام المغازی وغیرہ

مشہور یہ ہے کہ حضور انور ﷺ بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ کا یہی قول ہے۔

شرح مواہب میں امام ابن کثیر سے ہے:

ھوالمشہور عندالجمہور

Description: F:\My System Data [E]\1. ZIA-E-TAIBA WORK\Mudassir\1 PSD files\1 Mahnaama Mujalla Zia-e-Taiba\Monthly 2018\11 November Rabi ul Noor 1440\Design\12-rabi-ul-awwal-wafat-ya-wiladat-2.png جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے اسی میں ہے ’’ھوالذی علیہ العمل‘‘ یہی وہ ہے جس پر عمل ہے شرح الھمز یہ میں ہے۔

ھوالمشہور علیہ العمل

یہی مشہور ہے اور اسی پر عمل ہے اسی طرح مدارج وغیرہ میں تصریح کی۔ (فتاویٰ رضویہ، ج ۲۶، ص ۴۱۲)

محقق علی الاطلاق، برکۃ رسول اللہ ﷺ فی الھند، امام المحدثین حضرت سیّدنا ومولانا شیخ عبدالحق محدث دہلوی ﷜ ہیں:

جاننا چاہیے کہ جمہور اہل سیر اور ارباب تواریخ کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارک عام الفیل کے چالیس یا پچپن دن کے بعد ہوئی ہے یہ قول سب سے زیادہ صحیح ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ ماہ ربیع الاول میں ولادت ہوئی اور بعض علماء اسی کو اختیار کرتے ہیں اور بعض بارہ بھی کہتے ہیں اور بعض دوربیع الاول اور بعض آٹھ ربیع الاول کی رات گزرنے کے بعد کہتے ہیں بہت سے علماء اسی کو اختیار کرتے ہیں اور بعض دس بھی کہتے ہیں لیکن پہلا قول یعنی بارہ ربیع الاول کا زیادہ مشہور واکثر ہے اسی پر اہل مکہ کا عمل ہے ولادت شریف کے مقام کی زیارت اسی رات کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھتے ہیں۔ (مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۲۳)

اہل حدیث کے مشہور عالم نواب سیّد محمد صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ولادت شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجرروز دوشنبہ شب دوازدہم ربیع الاول عام الفیل کو ہوئی جمہور علماء کا یہی قول ہے ابن جوزی نے اس سے اتفاق کیا ہے۔‘‘ (الشمامہ العنبریہ مولد خیرالبریہ صفحہ ۷)

علماء دیوبند کے مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع سیرت خاتم الانبیاء میں رقمطراز ہیں۔

الغرض جس سال اصحاب فیل کا حملہ ہوا اس کے ماہ ربیع الاول کی بارھویں تاریخ کے انقلاب کی اصل غرض ’’آدم‘‘اولاد آدم کا فخر، کشتی نوح کی حفاظت کا راز، ابراہیم کی دعا۔ موسیٰ وعیسیٰ کی پیش گوئیوں کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد رسول اللہ ﷺ رونق افزائے عالم ہوتے ہیں۔ (سیرت خاتم الانبیاء صفحہ ۱۸)

تاریخِ وفات ؟

حضور نبی کریم ﷺ کے تاریخ وصال بارے ائمہ کا اختلاف ہے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب قول ہے کہ بارہ ربیع الاول کو وصال فرمایا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ایک اور قول منسوب یہ بھی ہے کہ ۱۰؍ربیع الاول کو وصال ہوا۔

حضرت اسماء بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف سے منسوب قول ۱۵ ربیع الاول ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود ﷜ کی طرف منسوب قول ۱۱ رمضان کا ہے۔ (البدایہ والنھایہ جلد ۵ صفحہ ۲۹۵،۲۹۴، وفاء الوفاء، ج ۱، ص ۳۱۸)

حضرت علامہ مولانا اشرف قادری صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:

پہلی روایت کہ جس میں ۱۲ ربیع الاول تاریخ وفات ہے اس کی سند میں محمد بن عمر الواقدی ایک راوی ہے جس کے بارے میں امام اسحق بن راہویہ، امام علی مدینی امام ابوحاتم رازی اور نسائی نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ واقدی اپنی طرف سے حدیثیں گھڑلیا کرتا تھا امام یحییٰ بن معین نے کہ واقدی ثقہ یعنی قابل اعتبار نہیں امام احمد بن حنبل نے فرمایا واقدی کذاب ہے حدیثوں میں تبدیلی کردیتا تھا بخاری اور ابوحاتم رازی نے کہا کہ واقدی متروک ہے مرہ نے کہا کہ واقدی کی حدیث نہ لکھی جائے ابن عدی نے کہا کہ واقدی کی حدیثیں تحریف سے محفوظ نہیں ذہبی نے کہا واقدی کے سخت ضعیف ہونے پر ائمہ جرح وتعدیل کا اجماع ہے۔

(میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۴۲۵) (بارہ ربیع الاول میلاد النبی یا وفات النبی ا صفحہ ۴)

لہٰذا بارہ ربیع الاول کو وفات بتانے والی روایت پایۂ اعتبار سے بالکل ساقط ہے اس قابل ہی نہیں کہ اس سے استدلال کیا جاسکے۔

دیوبندی مؤرخ شبلی نعمانی وفات النبی ﷺ کے حوالے سے لکھتا ہے۔

تاریخ وفات کی تعیین میں راویوں کا اختلاف ہے کتب حدیث کا تمام تردفتر چھان ڈالنے کے بعد بھی تاریخ وفات کی مجھ کو کوئی روایت احادیث میں نہیں مل سکی ارباب سیر کے ہاں تین روایتیں ہیں یکم ربیع الاول دوم ربیع الاول اور ۱۲ ربیع الاول ان تینوں روایتوں میں بالصم ترجیح دینے کے لیے اصول روایت و درایت دونوں سے کام لینا ہے روایۃ دوم ربیع الاول کی روایت ہشام بن محمد بن سائب کلبی اور ابومخنف کے واسطہ سے مروی ہے (طبری ص ۱۵۔۱۸) اس روایت کو گو اکثر قدیم مؤرخوں مثلاً یعقوبی ومسعودی وغیرہ نے قبول کیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک یہ دونوں مشہور دروغ گواورغیر معتبر ہیں یہ روایت واقدی سے بھی ابن سعد وطبری نے نقل کی ہے (جزء وفات) لیکن واقدی کی مشہور ترین روایت جس کو اس نے متعدد اشخاص سے نقل کیا ہے وہ ۱۲ ربیع الاول ہے البتہ بیہقی نے دلائل میں بسند صحیح سلیمان التمیمی سے دوم ربیع الاول کی روایت نقل کی ہے (نورالنبراس ابن سیّدالناس وفات) لیکن یکم ربیع الاول کی روایت ثقہ ترین ارباب سیر موسی بن عقبہ سے اور مشہور محدث امام لیث مصری سے مروی ہے (فتح الباری وفات)امام سہیلی نے روض الانف میں اسی روایت کو اقرب الی الحق لکھا ہے (جلد دوم وفات)اور سب سے پہلے امام مذکورہی نے درایۃً اس نکتہ کو دریافت کیا کہ ۱۲ ربیع الاول کی روایت قطعاً ناقابل تسلیم ہے کیونکہ دوباتیں یقینی طور پر ثابت ہیں روز وفات دوشنبہ کا دن تھا۔ (صحیح بخاری ذکر وفات وصحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ)

اس سے تقریباً تین مہینے پہلے ذی الحجہ۱۰ھ روز جمعہ سے ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ تک حساب لگاؤ ذی الحجہ محرم صفر ان تینوں مہینوں کو خواہ ۲۹،۲۹ لوخواہ ۳۰،۳۰خواہ بعض ۳۰ کسی حالت اور کسی شکل سے ۱۲ ربیع الاول کو دوشنبہ کا دن نہیں پڑ سکتا۔

اس لیے درایۃً بھی یہ تاریخ قطعاً غلط ہے دوم ربیع الاول کو حساب سے اس وقت دوشنبہ پڑسکتا ہے جب تینوں مہینے ۲۹ ہوں جب دو پہلی صورتیں صحیح نہیں ہیں تو اب صرف تیسری صورت رہ گئی ہے جو کثیرالوقوع ہے یعنی یہ کہ دومہینے ۲۹ کے اور ایک مہینہ۳۰ کا لیا جائے اس حالت میں ۲۹ ربیع الاول کو دوشنبہ کا روز واقع ہوگا اور یہی ثقہ اشخاص کی روایت ہے۔

یکم اور دوم تاریخیں دوم تاریخ صرف ایک صورت میں پڑ سکتی ہے جو خلافِ اصول ہے یکم تاریخ تین صورتوں میں واقع ہوسکتی ہے اور تینوں کثیر الوقوع ہیں اور روایات ثقات ان کی تائید میں ہیں اس لیے وفات نبوی کی صحیح تاریخ ہمارے نزدیک یکم ربیع الاول ۱۱ھ ہے اس حساب میں فقط رویت ھلال کا اعتبار کیا گیاہے جس پر اسلامی قمری مہینوں کی بنیاد ہے اصول فلکی سے ممکن ہے کہ اس پر خدشات وارد ہوسکتے ہیں۔ (سیرت النبی جلد ۲ صفحہ ۱۷۲)

علامہ ابوالقاسم السھیلی﷫ نے الروض الانف یہی استدلال فرمایا کہ نو ذوالحجہ جو جمعۃ المبارک کا دن تھا اس بات پر سب کا اتفاق ہے اس حساب سے ذوالحجہ، محرم، صفر کے ایام کی تعداد انتیس اور تیس تصور کرکے ممکنہ آٹھ صورتوں میں حساب گیا تاہم کسی صورت میں بھی ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو پیر کادن نہیں آتا۔ (البدایہ والنھایہ جلد ۵ صفحہ ۲۹۶)

اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپ ﷺ کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعاً جائز نہیں چنانچہ امام مالک﷫ فرماتے ہیں:

امرنا ان لانحد علی میت فوق ثلاث الالزوج.

ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پر۔ (مؤطا امام مالک صفحہ ۲۲۰،۲۱۹)

ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کی غمی منانا ناجائز ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کے دن پیدا ہوئے اور وفات بھی جمعہ کے دن ہوئی جو بالاتفاق ثابت ہے۔

اور حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان ھذایوم عید جعلہ اللہ للمسلمین. (سنن ابن ماجہ، ص ۷۸)

یہ جمعہ عید کا دن ہے اسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن بنایا ہے۔

معلوم ہوا کہ جمعہ یوم میلاد النبی آدم علیہ السلام بھی ہے اور وفات النبی علیہ السلام بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یوم میلاد کی خوشی کو برقرار رکھا گیا ہے۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی ﷜ ولادت کی تاریخ اور وفات کی تاریخ کے بارے میں فرماتے ہیں۔

شرح مطہر میں مشہور بین الجمہور ہونے کے لیے وقعت عظیم ہے اور مشہور عندالجمہور ہی ۱۲؍ربیع الاول ہے اور علم ہئیات وزیجات کے حساب سے روز ولادت شریف ۸ ربیع الاول ہے۔

کما حققناہ فی فتاوٰنا.

(جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوی میں اس کی تحقیق کردی ہے۔)

یہ جو شبلی وغیرہ نے ۹ ربیع الاول لکھی کسی حساب سے صحیح نہیں تعامل مسلمین حرمین شریفین ومصروشام بلاداسلام وہندوستان میں ۱۲ ہی پر ہے اس پر عمل کیا جائے اور روز ولادت شریف اگر چہ آٹھ یا بالفرض غلط نو یا کوئی تاریخ ہو جب بھی بارہ کو عید میلاد کرنے سے کونسی ممانعت ہے وہ وجہ کہ اس شخص نے بیان کی خود جہالت ہے اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے۔تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمت الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا لہٰذا اس تاریخ کو روز ماتم وفات نہ کیا روز سرور ولادت شریفہ کیا

کمافی مجمع البحار الانوار.

(جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں ہے) اور اگر ہئیات وزیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخ وفات شرف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول کماحققناہ فی فتاوٰنا(جیسا کہ ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تحقیق کردی ہے ) بہر حال معترض کا اعتراض بے معنی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۶صفحہ ۴۲۸،۴۲۷)

حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دھوم
مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائی گے



[1] ۔ (پارہ ۳ سورۃ ابراہیم آیت ۵)

[2] ۔ (تفسیر خازن جلد ۵ صفحہ ۲۶)

[3] ۔ (پارہ ۴ آل عمران الآیۃ ۱۶۴)

[4] ۔ (پارہ ۳۰ سورۃ الضحیٰ آیت ۱۱)

[5] ۔ (مواہب اللدنیہ جلد ۱صفحہ ۲۷، زرقانی علی المواہب جلد ۱ صفحہ ۱۳۹، ماثبت من السنۃ )

[6] ۔ (البدایہ والنھایہ جلد ۲ صفحہ ۳۰۲، بلوغ الامانی شرح الفتح الربانی جلد ۲ صفحہ ۱۸۹)

[7] ۔ (خلاصۃ التھذیب صفحہ ۲۶۸مطبوعہ بیروت )

[8] ۔ (تقریب التھذیب صفحہ ۱۲۶، خلاصہ التہذیب صفحہ ۱۴۳)

[9] ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۲ صفحہ ۲۰۳،۲۰۲)

[10] ۔ (صفۃ الصفوہ جلد ۱ صفحہ ۲۲)

[11] ۔ (الوفاء مترجم صفحہ ۱۸۸)

[12] ۔ (المواہب اللدنیہ مع الزرقانی جلد ۱ صفحہ ۲۴۷)

[13] ۔ (زرقانی شرح مواہب جلد ۱ صفحہ ۲۴۸)

[14] ۔ (سیرت حلبیہ جلد ۱ صفحہ ۵۷)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi