شب برات کی حقیقت


حٰم(۱)وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ(۲)اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ مُّبٰرَکَۃِ (حم الدخان ۲۵ ) قسم ہے واضح کتاب کی ہم نے اس کو ایک متبرک رات میں اتارا۔ مبارک رات: اس میں تو کوئی شک نہیں کہ شعبانِ معظم کے نصف میں ایک متبرّک رات ہوتی ہے۔رہا یہ امر کہ سورۂ ِدخان کی اس آیت میں جس مبارک رات کا ذکر کیاگیا وہ شعبان ہی کی رات ہے یا’’لیلۃالقدر ‘‘ہے جو رمضان شریف میں آتی ہے۔اس میں مختلف روایات ہیں۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۂِمبارکہ دراصل لیلۃالقدرہی ہے اور بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ لیلۂِمبارکہ لیلۃالقدر کے علاوہ ایک رات ہے جو شعبان کے نصف میں آتی ہے جیسا کہ حضرت عکرمہ اور دیگر حضرات کا قول تفسیر ِکبیر میں ہے: وقال عکرمۃ و ظائفۃ آخرون انھا لیلۃ البرأۃ و ھی لیلۃ النصف من شعبان (تفسیرِ کبیر صفحہ ۴۴۵ وابن کثیر) ترجمہ:عکرمہ اور کچھ دوسرے حضرات نے فرمایا کہ لیلۃ البرأۃ یہ نصف شعبان کی رات ہے۔غرض یہ کہ اسی تفسیر کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس رات کے بارے میں چند احادیث و اقوال سلف صالحین نقل کئے جاتےہیں۔متعدّد تفاسیر میں ہے کہ اس رات کو اکابر علمائے کرام نے چار ناموں سے یاد کیا ہے۔ ۱۔لیلۃ المبارکہ( برکت والی رات ) ۲۔لیلۃ الرّحمت ۳۔لیلۃ الصَّک ۴۔لیلۃ البرأۃ یہ نام اس رات کے مختلف اوصاف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دئے گئے ہیں۔ذیل میں ہر نام کی تشریح پیش کی جاتی ہے۔ لیلہ مبارکہ مبارکہ ’’برکت ‘‘ سے بناہے۔برکت کے معنیٰ ہیں زیادتی، نیک بختی ، نمو۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان حیوان، شجروحجر ، زمان و مکان، ذات وصفات غرضیکہ موجودات عالم کی متعدد چیزوں کو برکت سے متصف کیا ہے اور ہر چیز میں اس کی حسب ِ حیثیت برکت کا ظہور ہے۔قرآن حکیم کے متعلق فرمایاگیا: وَھٰذَا ذِکْرٌ مُّبٰرَکٌ اَنْزَلْنٰہُ(الانبیاء50) ’’اور یہ قرآن با برکت یا د داشت ہےجس کو ہم نے نازل کیا‘‘۔ اب قرآنی برکت لاتعداد طریقوں پر ظاہر ہوتی ہے مثلاً اس سے ہدایت پاکر جہنم سے نجات پانا،اور رضائے الٰہی حاصل کرنا ،عذاب الٰہی سے خود کو اور اپنے اہل و عیال کو محفوظ کرنا، لا تعداد روحانی امراض سے شفاء پانا وغیرہ۔ بیت اللہ شریف کو مبارک فرمایا گیا: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتِ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکاََ وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۹۶(آل عمران(96 بے شک پہلا گھر جو لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے وہ ہے جو مکّہ میں ہے اور جہاں والوں کیلئے ہدایت ہے۔ اس کی برکت کا ظہور اس طور پر ہے کہ جو شخص اپنے گناہوں کا بوجھ لاد کر یہاں آتا ہے وہ رب تعالیٰ کی معافی حاصل کرتا ہے اور رحمتوں سے مرصع ہو کر نکلتا ہے۔ اس کو دین اور دنیا دونوں ہی کے منافع حاصل ہوتے ہیں۔ اور رحمتوں سے مرصع ہوکر نکلتا ہے۔ قرآن کریم میں پانی کو بھی مبارک قرار دیا گیا ہے۔ وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَکاََ(ق9) اورہم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا۔ سبحان اللہ پانی کی برکات تو عالم محسوسات میں بہت ہیں۔اس عالم ِ زیریں کا قیام اس کی برکات سے ہے۔ برکت کے لغوی معنیٰ کا ظہور بلا کسی تاویل و تفسیر یہاں نظر آتا ہے۔کس طرح فصلوں چراگاہوں اور گلستانوں میں پانی کے سبب نمواور نیک بختی کا ظہور ہوتا ہے۔پانی کا ذکر آیا تو اس پر سیّدی و سندی الشیخ محی الدین السیّدعبدالقادر الجیلانی کا فرمان نقل کردینا بھی مفید ہوگا جس کا خلاصہ یہ ہے: تمثیل حسن پانی میں دس خوبیاں ہیں۔(۱) سیال ہونا (۲)نرمی (۳)طاقت (۴)لطافت (۵)صفائی (۶)حرکت (۷)تری (۸)ٹھنڈا (۹)تواضع (۱۰)زندگی۔ یہی دس خوبیاں اللہ تعالیٰ نے عقلمند مومن میں رکھی ہیں۔ اس کے لئے دل میں نرمی، اخلاق میں رِقَّت، اس کے جسم میں بے پناہ روحانی طاقت، نفس کی لطافت، عمل کی صفائی، بھلائی کی طرف حرکت، آنکھوں میں رطوبت، گناہوں کی وجہ سے افسردگی مخلوق سے تواضع، اور پاک زندگی یہ سب اوصاف ایک مومن میں ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔یہ تھیں پانی کی برکات جس رحیم و کریم نے بیت اللہ، قرآنِ پاک، پانی وغیرہ کو مبارک بنایا اس نے زمانے کے ایک حصے یعنی شعبان کو بھی مبارک بنایا۔انہی برکات کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکی اس حدیث میں اشارہ ہے: عن عائشہ رضی اللہ عنھا قالت قال رسول صلی اللہ علیہ وسلمان اللہ تبارک و تعالٰی ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی سماء الدنیا فیفقر لاکثر من عدد شعرعتم کلب۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور بنی بکر کی بکریوں کے بالوں سے زائد تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ نزول سے مراد تجلیات خداوندی کا آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ ہونا ہے۔بے شک اللہ تعالی زمان و مکان کی قید سے بر تر و بالا ہے(اگر چہ ایک فرقہ معاذاللہ اللہ تعالی کو بھی مقید کرنے کے حق میں ہے) تاہم یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بعض امکنہ واز منہ اس کی خصوصی صفاتی تجلیات کے لئے مخصوص ہیں۔جسے شجرہ مبارکہ،کوہِ طور، اور بیت اللہ شریف وغیرہما۔مختصر یہ کہ ہم کو نزول پر اعتقاد رکھنا چاہیئے اور کیفیت نزول کا علم اسی ذات شریف کی طرف راجع کرنا چاہیئے۔حدیث شریف میں بنو کلب کی بکریوں کا ذکر خصوصی طور پر اس لئے ہےکہ یہ قبیلہ بکثرت بکریاں پالتا تھا۔ مراد یہ کہ بکثرت لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے۔یہ ایک محاورہ ہے جیسا کہ کہا جائے کہ فلاں شخص کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں۔ یہ وہ بابرکت رات ہے جس کے بارے میں حضرت علی فرماتے ہیں کہ اس رات غروبِ آفتاب ہوتے ہی اللہ تعالی آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے(جبکہ دیگر ایام میں رات کے آخری حصہ میں یہ تجلی ہوتی ہے) اور فرماتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ ہے کوئی شفاء طلب کرنے والا تاکہ میں اسے شفاءدوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دوں)(ابن ماجہ و بیہقی) یہ تھیں اس رات کی برکات۔ لیلۃ الرّحمۃ اس رات کو رحمت کی رات یا لیلۃ الرحّمۃ بھی کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ وہ بے پایاں رحمتیں ہیں جن کا ذکر حضرت عباس کی اس روایت میں ہے: ’’جبریل حاضر خدمت اقدس ﷺ ہوئے اور عرض کی کہ یہ وہ رات ہے جس میں آسمان کے دروازے کُھل جاتے ہیں رو آپ ﷺ نماز پڑھئے اور اپنے ہاتھ اٹھائیے (دعاکیلئے)۔حضور اکرمﷺ نے فرمایا یہ رات کیسی ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ وہ رات ہے جس میں رحمت کے تین سو دروازے کُھل جاتے ہیں۔اللہ تعالی اس رات میں ہر شخص کی مغفرت فرماتا ہے سوائےدس لوگوں کے:(۱)مشرک (۲)کاہن (۳)جادوگر (۴)کینہ پرور (۵)والدین کی نافرمانی کرنے والا (۶)سودخور (۷)چُغل خور (۸)شرابی (۹)زانی (۱۰)ذخیرہ اندازی کرنے والا۔ یہی وہ رحمتوں بھری رات ہے کہ جس میں رحمتوں کے حصول کی خاطر رحمۃ للعالمین ﷺتمام رات عبادت میں گزار دیتے تھے۔ چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نصف شعبان کو آپ ﷺ کی باری میرے یہاں تھی کہ رات کو میں نے آپ ﷺ کو نہ پایا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ کہیں آپ ﷺ دوسری بیوی کے ہاں تو تشریف نہیں لے گئے۔چنانچہ میں نے تمام ازواج کے گھر آپ ﷺکو تلاش کیا مگر نہ پایا حتیٰ کہ جنت البقی میں آئی تو آپ ﷺ کو یہاں پایا۔ آپ ﷺ کا سر آسمان کی طرف اٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ عنھا یہ سمجھتی تھیں کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا۔میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھے خیال پیدا ہوا تھا کہ آپ ﷺ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف رکھتے ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نصف شعبان کو اللہ تعالیٰ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زائد لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ یہ تھا لیلۃالرحّمۃ کا مختصر تذکرہ۔ لیلۃالصّک ’’صک‘‘کے معنی عربی زبان میں ’’چک ‘‘ کے آتے ہیں یعنی کسی معاملہ میں پختگی حاصل کرنے کیلئے تحریر لکھ دینا۔اس رات کو ’’لیلۃالصک‘‘ کہنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس رات میں گناہوں کی خلاصی تحریر لکھ دی جاتی ہے یا اس لئے کہ اس رات میں مخلوق کے معاملات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عکرمہ سے ’’فیھا یفرق کل امر حکیم‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ نصف شعبان کی رات میں آئندہ سال کے امور کا انتظار کیا جاتا ہے بعض زندے مردوں میں لکھے جاتے ہیں۔ بیت اللہ کے حاجیوں کا بھی لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر ان میں نہ زیادتی ہوتی ہے نہ کمی۔ لیلۃ البرأۃ (شبِ برأت) برأت کی رات ’’برأت‘‘ سے مراد کسی کو اس کی ذمہ داری سے آزاد کردینا۔ اسی لیلۃالبرأۃ کا ترجمہ فارسی زبان مین شبِ برأت ہے جس کو عوام ’’شبرات‘‘ کہتے ہیں۔ جس طرح عوام نے اس لفظ کا حلیہ بگاڑا ہے اسی طرح اس کے معنیٰ کی درگت بنانے میں بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ مسلمانوں نے سوچا کہ دیگر اقوام نے ہائیڈ روجن بم اور ایٹم بم بنالئے تو کم از کم ہم بٹاخے ہی بنالیں۔چنانچہ انھوں نے اس فن میں اتنی ترقی کی ان کے آتشی کھلونوں کے نام ہی اتنے ہیں کہ مستقِل کتاب درکار ہے۔افسوس صد افسوس کہ خداوند رحیم و کریم تم کو عذاب سے بَری کررہا ہے اور تم بُری طرح اس میں گِرتے چلے جا رہے ہو۔ آتِشبازی کے دینی نقصانات کے علاوہ دنیاوی نقصانات سے کون آگاہ نہیں۔ ہمارے ملک میں کتنے ہی بچے اپنے ہی ہاتھ سے لگائی ہوئی آگ میں جُھلس کر مر جاتے ہیں اور کتنے ماں باپ ہیں جو پیسے دے کر اپنے بچوں کو موت کے مُنہ میں دَکھیلتے ہیں اور درحقیقت ان کے قتل کے مُرتکب ہوتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ اسراف ہے فضول خرچی ہے اور اسلام نے واشگاف الفاظ میں اس کی ممانعت کی ہے۔ارشادِ باری ہے: اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ(اسراء 27) بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اگر پٹاخے چھورنا اسراف نہیں ہے تو شاید دنیا میں کوئی خرچ بھی اسراف کی صف میں نہیں آتا۔ پیسے کو حقیقی معنیٰ میں آگ لگانا یہی تو ہے۔ ہوں تو ناپاک کھیل ہمہ وقت نا جائز و حرام ہیں لیکن ہر بُرا کام با برکت زمانے میں یا مقام میں اور بھی بھیانک ہوجاتا ہے۔بچوں سے زائد اس کی ذمہ داری ان کے والدین پر عائد ہوتی ہے۔ یاد رکھیے یہ رات آپ کی زندگی کی اہم رات ہے،ناراضگی یا رضامندی کی رات، مقبول ہونے یا مردود ہونے کی نرات، وصل یا فراق کی رات ہے۔ اس میں فراخی، تنگدستی، زندگی یا موت کا فیصلہ ہونے والا ہوتا ہے۔ کیا کوئی ہے جس کے اتنے اہم امور کا فیصلہ در پیش ہوا اور وہ آرام سے سورہا ہو۔عزیز دو ستو! ہمیں یہ رات تو بہ استغفار میں صرف کرنی چاہیے۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi