قرآنی چیلنج


قرآنِ مقدس ہر دور میں اقوام عالم کی راہ نمائی فرماتا ہے تا قیامت عظمتِ قرآن کا پھریرا لہراتا رہے گا، اس نورِ مبین کی ضوفشانی سے اپنے اور بیگانے سب ہی اپنی استعداد کے مطابق مستفید ہو رہے ہیں۔ قرآنِ کریم نے اپنے زمانۂ نزول ہی میں خود کلامِ الٰہی کے طور پر تسلیم کر لیے جانے کے لئے حیرت انگیز چیلنج کیا تھا، شہرۂ آفاق نامی گرامی زبان و بیان کے ماہرین ، ادبا و شعرا گنگ اور مبہوت ہو گئے؛ آج تک کوئی قرآن کی مثل پیش کرنے کی جرأت نہ کر سکا اور نہ ہی تا قیامت یہ مکروہ آرزو پوری ہو سکتی ہے، چاہے تمام عقلِ انسانی اور ذریتِ شیطانی باہم مل بھی جائیں۔ قرآن کا ایک چیلنج اور ہے کہ ’’اس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے۔‘‘ ہر شے کا روشن بیان قرآن میں ہے۔ یہ اور ایسے ہی مضامین کی بعض دیگر آیات عالم انسان کو باور کراتی ہیں کہ دنیا کے تمام علوم قرآن میں ہیں بلکہ قرآن ہی تمام علوم کا سرچشمہ و منبع ہے۔ فقیر کا عقیدہ ہے کہ مادّی و غیر مادّی کائنات سے متعلق جملہ علوم اور اقسامِ علوم (Different Subject Area and All kinds of Knowledge) قرآن میں موجود ہیں۔اس کی روشن دلیل یہ ہے کہ لائبریری سائنس (Library Science)کے ماہرین آج تک یہ طے نہ کر سکے کہ قرآن کو لائبریری کے کس حصّے(Depart Shelf)میں رکھا جائے۔ قرآنِ مقدس، ذاتِ یکتا کا کلام (اپنی عظمت کے اعتبار سے) یکتا اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر نازل ہونے والی یکتا کتاب ہے۔ یہی انفرادیت قرآن کو معجز نما بناتی ہے۔ قرآنِ کریم کو لائبریری سائنس میں کلاسیفیکیشن (Classification) کے تحت 297کا نمبر الاٹ کیا گیا ہے۔ یہ درجہ بندیDavi Decimal Classificationکے اصولوں کے تحت ہے، جس کی رو سے علوم کی تقسیم اس طرح ہے: فلسفہ Philosophy 100 to 199 مذہب Relegion 200 to 299 سوشیالوجی Social Science 300 to 399 لغات Language 400 to 499 مبادیات سائنس Pure Science 500 to 599 عملی سائنس Applied Science 600 to 699 فنونِ لطیفہ Fine Arts 700 to 799 شعرو ادب Literature 800 to 899 تاریخ History 900 to 999 دنیا بھر میں کتب خانوں(Libraries) میں موجود مختلف النوع علوم پر مبنی کتابوں کی درجہ بندی کے لئے یہی معروف طریقہ ہے علاوہ ازیںLibrary Scienceکے چند دیگر ماہرین کی وضع کردہ کلاسیفکیشن بھی بعض ممالک میں مروج و مستعمل ہے لیکن امریکن ماہر تعلیم میل ویل ڈیوی (Melwel Devi)کی علمی درجہ بندی کو زیادہ شہرت حاصل ہے، اس ضمن میں یہ پہلو بڑا افسوس ناک ہے کہ علومِ اسلامی کے کثیر شعبوں(قرآن، تفسیر، تجوید، علم قراءت، رسم الخط، فقہ علی المذاہب اربعہ و مختلفہ، صرف و نحو، منطق، فلسفہ، تصوف، نعت گوئی، ادب، روحانیات، مکاشفات، نقوش و تعویذات، سیرتِ طیّبہ، تاریخ، تنقیدات، مناقب، مناظرہ، توقیت، ہیٔت، تقابلِ ادیان، اخلاق و احسان، سلوک اور فضائل وغیرہ) کے لئے متذکرہ ماہرین نے ایک ہی نمبر الاٹ کیا ہے۔ ان متعصب اور بد طینت ماہرین نے جانب دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصرانیت سے متعلق ادنیٰ ترین شعبہ یعنی چرچ میں کمپوز کی جانے والی موسیقی (Sacred Music)کی کتب کو باقاعدہ مستقل علیحدہ ایک نمبر الاٹ کیا ہے کرسمس کے موقع پر دنیائے عیسائیت کی آپس میں ملاقات اور (خیر سگالی کے جذبات کے لئے) کلمات کا تبادلہ (Protocol)کو بھی مستقل اور باقاعدہ ایک نمبر الاٹ کیا گیا ہے۔ طوالت اور نفسِ مضمون سے بُعد کا خوف دامن گیر نہ ہوتا تو فقیر اپنے محترم قارئین کے ذوقِ تجسس کو بڑھانے اور مزید حیران کرنے کا اہتمام کرتا ۔ فقیر یہ ضروری سمجھتا ہے کہ ان متعصب ماہرین کی جانب دارانہ فکر اور اسلام دشمنی کی سازش طشت ازبام کرنے کے لئے علیحدہ مستقل رسالہ تالیف کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو(UNESCO)کے تعلیمی اداروں میں وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قائم (Pakistan Bibliographical Wroking Group) پاکستان ببلیو گرافیکل ورکنگ گروپ ایک ادارہ ہے جس کے اسکول آف لائبریرین شپ (School of Librarianship) کے تحت ہائر سر ٹیفکیٹ کورس (Higher Certificate Course)کرایا جاتاہے، راقم السطور بھی اس میں متعلم رہا ہے، اس کی کلاسز میں مختلف گیسٹ سپیکرز(Guest Speakers)لیکچر دینے کے لئے تشریف لایا کرتے ہیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق لائبریرین الحاج محمد زبیر (مرحوم) چیئرمین تھے۔ لائبیری آف کانگریس امریکہ کے تربیت یافتہ اور امریکن قونصلیٹ کراچی میں متعین ریفرنس سیکشن(Reference Library)کے انچارج ’’خواجہ بدر الحسن صاحب‘‘ بطورِ گیسٹ اسپیکر جب لیکچر دینے کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ امریکہ اور یورپ میں لائبریری سانئس کے ماہرین ایک اجلاس میں قرآنِ مجید کے بارے میں یہ طے کرنا چاہتے تھے کہ اسے لائبریری میں کہاں رکھا جائے؟ مذہبیات کے شعبے میں 297کا نمبر دے کر اسلامی لٹریچر کے ساتھ رکھا جائے تو یہ دیانت کے تقاضوں کے خلاف ہے اس لیے کہ قرآن میں فلسفۂ کائنات بھی ہے۔ اگر اسے کتبِ فلسفہ کے ساتھ رکھیں تو یہ بھی غیر مناسب ہے کیوں کہ اس میں سائنسی مضامین بھی ہیں تاریخی اور ادبی مضامین بھی۔ خاصی دیر بحث کے بعد ایک ماہر نے مشورہ دیا کہ قرآن کو حوالہ جاتی کتاب (Reference Book)قرار دے کر شعبۂ حوالہ جات میں رکھا جائے تو دیگر ماہرین نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنس بک کی تعریف قرآن پر صادق نہیں آتی (کیوں کہ ریفرنس بک کی تعریف یہ ہے کہ وہ کتاب جو اوّل تا آخر بالاستیعاب مطالعہ نہ کی جائے بلکہ بوقتِ ضرورت بطورِ حوالہ پڑھی جائے اس لیے انسائیکلوپیڈیا (Encyclopedia)، لغت(Dictionary) مختلف جداول و زیجات (Almanacs)، ترقیاتی منصوبہ جاتی سالنامے(Year Bookds)، نایاب و ناپید کتب (Rare Books)، عدالتی فیصلے(PLD Books) اور قلمی مخطوطات (Manuscripts)وغیرہ کو ریفرنس لائبریری (Reference Libabrary)میں رکھا جاتا ہے اور ان کا اجرا،برائے قاری (Issue to Reader)نہیں ہوتا، صرف ریفرنس سیکشن ہی میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ قرآن نہ تو ناپید ہے اور نہ ہی مخطوطہ، بہ اعتبار علوم عظیم انسائیکلوپیڈیا تو ہے مگر پڑھنے والا، انسائیکلوپیڈیا جیسا سلوک(Encyclopedia Treat)نہیں کرتا اور قرآن بوقتِ ضرورت بطور ِحوالہ مرجع بھی ہے اور محض مسجد و کتب خانہ ہی میں نہیں، خطۂ ارض میں ہر جگہ اوّل تا آخر تلاوت کیا جاتا ہے؛ لہٰذا، قرآن کو ریفرنس سیکشن کے خانوں(Shelves)میں رکھنا بھی غیر اصولی ہے۔الحاصل، ماہرین کو انتہائی غور و فکر کے بعد نتیجتاً اعترافِ شکست کرنا پڑا کہ ہمارے وضع کردہ لائبریری اصول دنیا کی ہر علم کی ہر کتاب کو لائبریری کے مخصوص و متعین شیلف میں سجا سکتے ہیں لیکن قرآن، علوم کا جامع اور مکرر پڑھے جانے کا اعزاز رکھنے کے باعث ایسی فضلیت مآب کتاب ہے جو لائبریری میں ہر مضمون کی شیلف میں رکھی جاسکتی ہے، فقیر نے جب اگست/ستمبر 1998 میں نیویارک امریکہ لائبریری آف کانگریس کا وزٹ کیا، تو اس کی تصدیق بھی ہوئی۔ اسے فلسفہ (Philosophy)، دین (Religion)، معاشرت و عمرانیات (Sociology)، ادب (Literature)، تاریخ و قصص (History)، سائنس و ٹیکنالوجی (Science & Technology)، بیان و بلاغت(Figure of Speech) اور روحانیت (Spiritual) الغرض ہر شعبے میں رکھا جاسکتا ہے، اس لئے کہ قرآن علوم کا جامع ہی نہیں، بلکہ منبع و سرچشمہ بھی ہے۔(گلستانِ رمضان، علامہ نسیم احمد صدیقی نوری، 291تا296) انتخاب: محمد مدثر اکرام

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi