جب امانت رائیگاں کردی جا ئے


جب امانت رائیگاں کردی جا ئے از:تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضاخاں قادری ازہری دامت برکاتہم العالیۃ حواشی : مفتی محمد عبدالرحیم نشؔتر فاروقی یعنی امانت کو اس کے مستحق تک نہ پہنچایا جائے۔ حدیث میں لفظ امانت عام ہے۔ جو مال، علم، عمل سب کو شامل، ’’تفسیرِ خازن‘‘ زیرِ آیتِ کریمہ: اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُکُمْ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمَانَاتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ یعنی بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کردو۔ یہ آیت تمام امانت کو شامل ہے تو اس کے حکم میں ہر وہ امانت داخل ہے جن کی ذمّے داری انسان کو سونپی گئی ہے اور یہ تین قسم پر ہے: پہلی یہ کہ اللہ کی امانت کو ملحوظ رکھے اور یہ اللہ کے احکام بجا لانااور ممنوعات سے پرہیز کرنا ہے۔ حضرت ابنِ مسعود کا قول ہے: امانت ہر شے میں لازم ہے یہاں تک کہ وضواور جنابت سے پاکی کے لئےغسل، نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور ہر قسم کی عبادات میں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس میں اللہ کی امانت ملحوظ رکھےاوروہ اللہ کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے بندے کے تمام اَعضا میں رکھی ہیں۔ تو زبان کی امانت یہ ہے کہ زبان کو جھوٹ، غیبت، چغلی وغیرہ خلافِ شرع باتوں سے محفوظ رکھے، آنکھ کی امانت یہ کہ محرمات پر نگاہ سے آنکھ کو بچائے اور کان کی امانت یہ کے لغو، بے حیائی اور جھوٹی باتیں اور اس کی مثل خلافِ شرع باتیں سننے سے پرہیز کرے۔ تیسری قسم یہ کہ بندہ اللہ کے بندوں کےساتھ معاملات میں امانت کا لحاظ رکھے؛ لہٰذا،اس پر ودیعت اور عاریت کا ان لوگوں پرلوٹانا ضروری ہےجنہوں نے اُس کے پاس یہ امانتیں رکھیں اور ان کے ساتھ خیانت کرنا منع ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث مروی ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: امانت اس کو پہنچاجس نے تیرے پاس امانت رکھی اور اس کے ساتھ خیانت نہ کرجس نے تیرے ساتھ خیانت کی۔ رواہ ابوداود [1] وترمذی [2] ’’فقال حدیث حسن غریب‘‘ یعنی امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسی میں ناپ اور تول پورا کرنا داخل ہے۔لہٰذا، ان میں کمی کرنا حرام ہے اور اس کے عموم میں امیروں اور بادشاہوں کی رعیت کے ساتھ اور علما کا عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی داخل ہے، تو یہ تمام چیزیں اس امانت کی قبیل سے ہیں جس کا ان کے مستحقین کو پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا۔ علامہ بغوی نے اپنی سند سے روایت کی، فرماتے ہیں کم ایسا ہواکہ ہم کو رسول اللہ ﷺنے خطبہ دیااور یہ نہ فرمایا ہو کہ اس کا ایمان نہیں جس کے پاس دیانت داری نہیں اور اس کا دین نہیں جس کو عہد کا پاس نہیں۔ علامہ موصوف کےالفاظ یہ ہیں:’عن انس قال فلما خطبنا رسول اللہ ﷺ الا قال لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھدلہ۔‘‘ [3] اقول: علماکی عام مسلمان کے ساتھ خیرخواہی یہی ہے کہ وہ اللہ ورسول جل وعلاوﷺکے احکام ان تک پہنچائیں اہل کو وہ علم سکھائیں جو ان کے پاس اس کی امانت ہے اس کو چھپالینا امانت کو ضائع کرنا ہے۔ [4] امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ’’اللآلی المصنوعۃ‘‘ میں اپنی سند سےسرکار ﷺسے روایت کیا: ’’عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما قال، قال رسول اللہ ﷺ تناصحوا فی العلم ولا یکتم بعضکم بعضا فان خیانۃ فی العلم اشد من خیانۃ فی المال‘‘ [5] یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما نے فرمایا، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے علم کے معاملے میں خیر خواہی سے کام لو اور کوئی کسے سے علم نہ چھپائے۔ اس لیے علم میں خیانت مال میں خیانت سے سخت تر ہے۔ تقریر با لاسے روشن ہوگیا ہے اور ادائے فرضیت و امانت کا معنیٰ خوب روشن ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ امانت کو ضائع کرنا ان تمام مذکورہ صورتوں کو شامل ہے۔ یہ سرکار علیہ الصلاۃ والسلام کے ذہنِ مبارک سے نکلے ہوئے ایک کلمے کی جامعیت اور اس میں کثرتِ معانی کا یہ حال ہے کہ کسی کا بیان اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں ’’علم کو چھپانا‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سے پوشیدہ نہ رکھے جیسا کہ تقریر بالا میں گزرا اور خود آیت ِکریمہ سے یہ قید صراحتاً مستفادہے اور بلا شبہ یہ مال میں خیانت سے زیادہ سخت ہے کہ بعض صورتوں میں کتمانِ علم سے نوبت کفر تک پہنچتی ہے جیسے حضور ﷺکے فضائلِ جلیلہ شہیرہ وکثیرہ کو چھپانا اور ان کے بجائے ایسی باتیں بیان کرنا جس سے تنقیصِ شان رسالت ہوتی ہے۔ یہ اگلے زمانے میں یہودیوں کی خصلت تھی اور اب اس کے مصداق وہابیہ، دیابنہ وغیرہما ہیں۔سرکارِ ابد قرار ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر امّت میں کچھ لوگ یہودی ہیں اور میری امّت کے یہودی تقدیر الٰہی کے جھٹلانے والے ہیں۔ [6] مفہومِ حدیث سے خوب ظاہر کہ کچھ لوگوں کو سرکار ﷺ نے تکذیب اور کتمانِ حق کی وجہ سے یہودی فرمایا تو وہابیہ وغیرہم جو حضور ﷺ کے علمِ غیب ہی کے منکر اور دانستہ فضائل چھپاتے ہیں اور ضروریاتِ دین کو نہیں مانتے، یہ بھی بلا شبہ اس حدیث کے مصداق ہیں اور وہ حدیث جس میں فرما یاکہ اس کا ایمان نہیں جس کے پاس دیانت نہیں ان منکرین کے حق میں اپنے ظاہری معنیٰ پر ہے تو ان کی کلمہ گوئی اصلاً انہیں مفید نہیں ؎ ذیاب فی ثیاب، لب پہ کلمہ دل میں گستاخی سلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے یہاں ظاہر ہوا کہ حدیث میں قربِ قیامت کی نشانیوں میں جو یہ فرما یا کہ کبیرہ گناہوں کو حلال ٹھہرائیں گےیہ(جملہ ) فقرۂ سابقہ سے مربوط ہے اور دونوں میں علاقہ سبب ومسبب کا ہے یعنی جب امانت ان سے مسلوب ہو جائے گی اور اس کو ضائع کرنا یہی ہے وہ کبیرہ گناہوں میں بے پرواہی کے ساتھ مبتلا ہو جائیں گے یا معاذاللہ! انھیں دل سے حلال جان کر ایمان سےدور اور دین سے بے زار ہو جائیں گے۔ حدیث دونوں معنیٰ کو شامل ہے اور دونو ں فریق حدیث کے الگ الگ محمل کے اعتبار سے حدیث کے مصداق ہیں اور دوسرا فریق یعنی جو محرماتِ قطعیہ کو حلال جانے، مسلوب الامانت، ایمان سےمحروم، اسلام سے خارج ہیں اور اللہ کی عظمت کے لحاظ سے ہر گنا ہ، ہر معصیت کبیرہ ہے، اگرچہ بعض معاصی بمقابلہ بعض کبیرہ ہیں اور بعض صغیرہ ہیں۔ کبیرہ کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ ہر ایسی معصیت ہے جس کے مرتکب پر کتاب و سنّت میں وعید شدید آئی ہےجس کے ارتکاب سے عدالت ساقط ہو جاتی ہے، جیسے سود خوری، یتیم کا مال کھانا ،ماں باپ کی نہ فرمانی ،قطعۂ رحم، جادو، چغلی ، جھوٹی گواہی اور حاکم کے پاس ناحق لوگوں کی شکایت کرنا ، زنا کی دلالی،محار م کے معاملے میں بے غیرتی وغیرہ ، یوں ہی وہ گناہ جس کے مرتکب پرلعنت وارد ہوئی، اسی طرح ہر صغیرہ جس پر اصرار کرےاور بار بار اس کا مرتکب ہو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما فرماتے ہیں : ’’لا کبیرۃ مع الاستغفار ولا صغیرۃ مع الاصرار۔‘‘ [7] یعنی استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں رہتا۔ (’’آثارِ قیامت ‘‘،مطبوعۂ دارالنقی،کراچی، ص: 18تا 22) [1] سنن ابی داؤد/ کتاب البیوع/ باب فی الرجل یاخذ حقہ من تحت یدہ/رقم الحدیث:3535، ج: 3، ص:290۔ [2] جامع الترمذی/ابواب البیوع/ رقم الحدیث:1264/ ج:3 / ص:556۔ [3] شرح السنۃ/کتاب الایمان/ باب علامات النفاق/ رقم الحدیث: 38/ ج: 1/ ص:5۔ [4] امانت کی بربادی اس طرح بھی ہوگی کہ ہر کام نا اہلوں کے سپرد ہوجائیں:چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سےمروی ہے،وہ فرما تے ہیں: ’’بینما کان النبی ﷺ یحدث اذ جاء اعرابی متی الساعۃ: قال ضیعت الامانۃ فانتظر الساعۃ قال کیف اضاعتھا قال اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ۔‘‘ (مشکاۃالمصابیح/کتاب الفتن/ باب اشراط الساعۃ/ الفصل الاوّل /رقم الحدیث: 5439/ ج:3/ ص:1498) یعنی اس دوران کہ نبی کریم ﷺگفتگو فرمارہے تھے ایک اعرابی آیا اور عرض کیا کہ: قیامت کب آئے گی؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: جب امانت برباد کی جانے لگے گی تو تم قیامت کا انتظار کرو۔ اس نے سوال کیا امانت کی بربادی کس طرح ہوگی؟ ارشاد ہوا جب ہر کام نا اہلوں کو سونپا جانے لگے تو تم قیامت کا انتظار کرو۔ صادق المصدوق صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی فی زماننا ظاہر ہونے لگی ہے، چناں چہ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ حکومت و سلطنت ایسے لوگو ں کے ہاتھ میں ہے جو کسی طرح بھی اس کے اہل نہیں۔ اسی طرح گاؤں کی سرداری، پردھانی نالائقوں کے سپرد ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مساجد کی تولیت اور ان کا انتظام و انصرام بھی ایسے ایسے بے نمازی دنیا دار مال داروں وسیٹھوں کے ہاتھ ہے جو عموماً عید وبقرہ عید کی نماز پڑ ھ لیتے ہیں یا کبھی کبھی جمعہ کی نماز کے لیے مسجدو ں میں آجاتے ہیں۔ یوں ہی دینی درس گاہوں اور دیگر قومی ادارو ں کے اعلیٰ عہدیداران، مثلاً ناظم اعلیٰ اور سیکرٹری کا عہدہ ایسے لوگوں کے سپرد کیا جارہا ہے جو علم دین اور قوم کے مسائل وضروریات سے قطعی نا بلد ہیں۔ ظاہر سی بات ہے اچھی سے اچھی چیز بھی نااہلوں کے پاس پہنچ جائے تو وہ بد سے بد تر ہوہی جائے گی۔غرض کہ اس زمانے کا ہر کام نا اہلوں اور نالائقوں کے سپرد ہےلیکن پھر بھی خدا کا فضل ہے کہ کچھ لوگ ابھی ان عہدوں کے لائق اور اہل موجود ہیں۔ [5] اللآ لی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ/ کتاب العلم /ج: 1/ ص :189۔ [6] اللآ لی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ/ کتاب السنۃ /ج :1 /ص :236۔ [7] کنز العمال / کتاب التوبۃ /الفصل الاوّل /رقم الحدیث : 10238/ ج: 4/ ص : 218 ۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi