اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم


شعبان کی وجہِ تسمیہ: پانچویں صدی کے مجدد سیّدنا امام محمد غزالی﷫ فرماتے ہیں: ’’شعبان دراصل شعب سے مشتق ہے ۔ اس کا معنیٰ ہے پہاڑ کو جانے کا راستہ، اور یہ بھلائی کا راستہ ہے۔ شعبان سے خیرِ کثیر نکلتی ہی۔‘‘(’’مکاشفۃ القلوب‘‘، صفحہ ۶۸۱) ایک اور قول کے مطابق شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق کے ہیں۔ چوں کہ اس ماہ میں بھی خیرِ کثیر متفرق ہوتی ہے، نیز بندوں کو رزق اس مہینے میں متفرق تقسیم ہوتے ہیں۔ (فضائل الایام والشہور، صفحہ ۴۰۴؛ ماثبت باالسنۃ، صفحہ۱۸۶) شبِ براءت سے متعلق ارشادِ خداوندی: ترجمہ :۔ قسم اس روشن کتاب کی۔ بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔ اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے پاس کے حکم سے؛ بے شک ہم بھیجنے والے ہیں۔ (کنز الایمان،پارہ ۲۵، سورۂ دخان، آیت ۱ تا ۵) تحریر: محققِ اہلِ سنّت حضرت علامہ نسیم احمد صدّیقی اس رات سے کون سی رات مراد ہے علمائے کرام کے اس میں دو قول ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما و حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ لیلۃ القدر تھی کیوں کہ سورۂ قدر میں اس کی وضاحت موجود ہے اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور جماعت کا خیال ہے کہ اس سے مراد پندرہ شعبان کی رات تھی۔ ایک لطیف نکتہ: سیّدی و سندی حضور غوثِ اعظم الشیخ عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان میں پانچ حرف ہیں: ۱۔شین ۲۔عین ۳۔ باء ۴۔ الف ۵۔ نون؛ پس ’’شین‘‘ عبارت ہے شرف سے اور ’’عین‘‘ عبارت ہے علو سے اور ’’با ‘‘عبارت ہے بِرّ(یعنی بھلائی) سے اور ’’الف ‘‘عبارت ہے الفت سے اور ’’نون ‘‘عبارت ہے نور سے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان میں اپنے نیک بندوں کو یہ پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے۔ ( غنیۃ الطالبین، عربی، جلد:۱، صفحہ ۲۸۸؛ نزہۃ المجالس، ج:۱، صفحہ ۱۳۱) شعبان المعظّم کی اہم ترین عبادت: غوث الثقلین ، امام الفریقین، سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ مزید فرماتے ہیں: ’’اس مہینے میں محبوب خدا اپر درود شریف کی کثرت کرنی چاہیے، کیوں کہ یہ مہینہ حضورِ پر نور شافع یوم النشورا کامہینہ ہے ۔ درود شریف اور اس مہینے کے وسیلے سے بار گاہِ الٰہی میں قرب حاصل کرنا چاہیے۔ (غنیۃ الطالبین، عربی، جلد:۱،صفحہ ۲۸۸) فضائل میں حدیثِِ مبارکہ: نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری اُمّت کا مہینہ ہے۔‘‘ (ماثبت با السنۃ، صفحہ۱۷۰بحوالہ جامع الکبیر بروایت امام حسن بصری ﷜) شعبان میں روزوں کی فضیلت: اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ میں نے محبوبِ خدا ﷺ کو رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘(بخاری شریف، جلدِ اوّل، صفحہ۲۶۴؛ مسلم شریف، جلدِ اوّل، صفحہ۳۶۵) شبِ براءت کے فضائل و اعمال: حدیثِ مبارکہ :۔(۱) امّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہﷺ کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی، آپ جنّت البقیع میں تھے، آپ کا سرِ آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے مجھے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات آسمانِِ دنیا پر (اپنی شایانِ شان) نزول فرماتا ہے اور بنو کلب قبیلے کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے(ترمذی، جلدِ اوّل، صفحہ۲۷۵؛ ابنِ ماجہ، صفحہ ۹۹)۔ (۲) مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نصف شعبان کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اسی رات غروبِ آفتاب تا طلوعِ فجر آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور فرماتا ہے: ’’کوئی ہے مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں، کوئی رزق طلب کرے تو اس کو رزق دوں، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہے تو اس کو عافیت دوں۔ (ابنِ ماجہ شریف، صفحہ نمبر۹۹) (۳) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم رؤف و رحیم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا: ’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی: (۱) رجب کی پہلی رات (۲)نصف شعبان کی رات(۳) جمعہ کی رات(۴)اور (۵) دونوں عیدوں کی رات ۔ (۴) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے: ’’نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب میں ظہور فرماتا ہے اور مشرک و چغل خور کے علاوہ سب کی بخشش فرمادیتا ہے۔(سننِ ابنِ ماجہ، صفحہ ۹۹) دعائیں: ابنِ اسحق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ ام ّالمؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے مجھے بتایا کہ نصف شعبان کی شب رسول اللہﷺ مسجد میں سجدے کی حالت میں یہ دعا فرما رہے تھے: ’’سَجَدَ لَکَ سَوَادِیْ وَخَیَالِیْ وَاٰمَنَ بِکَ فُوَا دِیْ وَہٰذِہٖ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِہَا عَلٰی نَفْسِیْ یَا عَظِیْمًا یُّرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ‘‘ [1] پھر آپ ا نے سر اٹھایا اور یہ دعا کی: ’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا تَقِیًّا نَقِیًّا مِّنَ الشِّرْکِ بَرِیًّا لَّا کَا فِرًا وَّ لَا شَقِیًّا‘‘ [2] پھر دوبارہ سجدہ کیا اور میں نے یہ پڑھتے ہوئے سنا: ’’اَعُوْذُ بِرِضَآئِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَآ اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ دَاوٗدُ اَغْفِرُ وَجْھِیْ فِی التُّرَابِ لِسَیِّدِیْ وَحَقَّ لِوَجْہِ سَیِّدِیْ اَنْ یُّغْفَرَ۔ [3] (مکاشفۃ القلوب، صفحہ۶۸۳۔۶۸۴) مختصر عمل مگر اجر بے مثل: ماہِ شعبان کی چودہ(۱۴) تاریخ کو قبلِ مغرب چالیس مرتبہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اور سو(۱۰۰) مرتبہ درود شریف پڑھنے کے نتیجے میں چالیس برس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ بہشت میں خدمت کے لئے چالیس حوریں مامور کردی جاتی ہیں۔ (مفتاح الجنان) شعبان المعظّم کے نوافل / غیبی لائف انشورنس: نمازِ مغرب کے بعد۶؍ رکعات نوافل اس طرح پڑھیں کہ دو رکعت نمازِ نفل برائے درازیِ عمر بالخیرپڑھیں، پھر سورۂ یٰسین پڑھ کر مزید دورکعت نفل برائے ترقی و کشادگیِ رزق پڑھیں، پھر سورۂ یٰسین پڑھ کر مزید دو رکعت نفل برائے دفعِ بلیات (ادا کر کے) استغفار پڑھیں، پھر سورۂ یٰسین پڑھ کر دعائے شعبان پڑھنے کے نتیجے میں سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ عز اسمہٗ کی طرف سے آپ کی زندگی کا بیمہ ہوگیا ۔ یعنی آئندہ ایک سال تک محتاجی اور آفات قریب نہیں آئیں گی۔ صلوۃ خیر سے چار ہزار نو سو (۴۹۰۰) حاجتیں پوری ہوتی ہیں: حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے تیس صحابہ علیہم الرضوان نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نمازِ خیر پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نظرِ رحمت فرماتا ہے، ایک نظر میں ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے جن میں سب سے ادنیٰ حاجت گناہوں کی مغفرت ہے۔ اس طرح کل چار ہزار نو سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دورکعت کر کے صلاۃ خیر مستحب کی نیت باندھیں، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس بار سورۂ اخلاص پڑھیں۔ پچاس نمازوں کی سو رکعتوں میں ایک ہزار مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھیں گے۔ [1] ترجمہ: ’’میرے بدن اور میری صورت نے تجھے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور یہ میرے ہاتھ ہیں جن سے میں نے خود پر زیادتی کی، اے عظیم! ہر بڑی بات میں اس پر امید کی جاتی ہے، بڑا گناہ معاف فرمادے! میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اس کی صورت بنائی اور کان اور آنکھ بنائے۔‘‘ [2] ترجمہ: ’’اے اللہ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو پر ہیزگار ہو، شرک سے پاک ہو ، نیک ہو … نہ کافر ہواور نہ ہی بدبخت ہو۔‘‘ [3] ترجمہ: ’’میں تیری ناراضگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ، تجھ سے تیری پناہ، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا بس تو ایسا ہے جیسے کہ تو نے خود اپنی تعریف فرمائی۔ میں وہی کہتاہوں جو میرے بھائی حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا میں اپنے آقا کے لئے مٹی میں اپنے چہرے کو خاک آلود کرتا ہوں اور چہرے کا یہ حق ہے کہ اپنے آقا کے لئے خاک آلودہ ہو۔‘‘

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi