عرفت ربی بفسخ عز ئمی


از: علامہ صادق رضامصباحی آپ اگرسوشل میڈیا کااستعمال کرتے ہیں توخلیفۂِ راشد حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی ذاتِ سِتودہ صفات سے منسوب بہت سارے اقوال و اِرشادات اکثرآپ کی نگاہ سے گزرتے ہوں گے۔کوئی بھی محتاط اورپڑھالکھاانسان یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جو اقوالِ زَریں، ارشاداتِ صادقہ اور افکارِ عالیہ حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے منسوب ہیں وہ واقعتاً ان کے ہیں بھی یانہیں تاہم اس پرغوروفکرکرنے سے ایک خیال چشمِ تصورمیں ضرور اُبھرآتاہے، وہ یہ کہ آخرکیا وجہ ہے کہ علم و حکمت اور انوار و معارف کے زیادہ ترموتی حضرت علی سے کیوں منسوب ہیں؟ حضرت علی حدیثِ نبوی کی روشنی میں بابِِ العلم ہیں اورجوشخصیت علم و فن کاباب ہو، اسے علم و حکمت کی کان، فضل و کمال کامنبع اور روحانیت و قدوسیت کا مرجع ہونا ہی چاہیے۔ ان اقوال اور ارشادات سے گزرتے ہوئے آپ یقیناً محسوس کرتے ہوں گے کہ یہ کس قدر گہرے اور وسیع ہیں۔حضرت علی کاایک ایک قول، ایک ایک فکر اور ایک ایک ارشاد مختصر و مُجمل سامتن ہے مگراس کی تشریح وتوضیح کی جائےتو ہزاروں صفحات بھی ناکافی معلوم ہونے لگیں، سوچ کے دریا خشک ہوتے دکھائی دیں اورفکرکے پنچھی دورجا اڑیں۔ انیت اقوال و افکار میں سے ایک بڑا ہی معروف قول عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ عَزَآئِمیْ ہے یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کےٹوٹنے سے پہچانا۔ کہنے کو تویہ فقط چارلفظی جملہ ہےمگرایک ایک حرف انوار و معارف کے لاکھوں موتیوں سے شرابورہے۔ مجھ جیسا ادنیٰ، بے شعور اور اجہل انسان بھی اگر اس پر لکھنے بیٹھے تو دفترکے دفتر ’سیاہ‘ کر ڈالے، پھرسوچیے کہ جو اہلِ علم ہیں، اہلِ کمال ہیں اور اہلِ شعور ہیں، وہ کتنی گہرائی سے اس پر اپنے خیالات کا اظہارکرسکتے ہیں۔ یہ قول ہمیں بتاتاہے کہ انسان کی حقیقت کیا ہے اور اس کی قوتِ پرواز کیا ہے۔ یہ بظاہرایک چھوٹا سا قول ہے مگر در اصل یہ ایک تاریخ ہے، ایک تہذیب اور ایک فلسفہ۔ ہم آپ اکثر منصوبہ بندی کرتے ہیں، مگر ناکام ہو جاتے ہیں، اپنی منزلوں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں مگر راستے کے خس و خاشاک ہمارے قدموں میں زنجیر بن جاتے ہیں اور کنکر پتھر ہمارے قدم لہولہوکردیتے ہیں۔ بس یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو ہمارے ذہنوں کے دروازے پر دستک دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ تیری ساری منصوبہ بندیاں، سارے ارادے اور عزائم اس ذاتِ باری کے دستِ قدرت میں ہیں جو یہ جانتا ہے کہ ہمارے ارادوں اورمنصوبوں کو کامیابیوں سے آشنا کرنا ہے یا نہیں کیوں کہ وہ ہماری کامیابی اور ناکامی کی مصلحتوں اورحکمتوں سے واقف ہے، وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ہمیں کہاں عزت دینی ہے اور کہاں ذلت سے ہم کنار کرانا ہے، کہاں گرانا ہے اور کہاں اٹھانا ہے ۔ لوگ اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ دعاؤں کی عدم قبولیت کا راز کیا ہے، اس راز تک اگر انسان پہنچ جائے تو وہ انسان نہ رہے بلکہ معاذاللہ! خدائی کا دعویدار ہو جائے۔ ہم اٹھتے بیٹھتے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اللہ پاک کارساز ہے، اس کے ہر کام میں حکمت و مصلحت ہے مگرکبھی یہ نہیں سوچتے کہ دراصل یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کو اپنی بے بسی، بے کسی اور لاچاری کا احساس ہونے لگتا ہے اور خدائے ربّ العالمین کی برتری کا احساس پورے وجود کو ڈھانپ لیتا ہے، بس سوچنے والا دماغ ہونا شرط ہے۔ حضرت علی بھی اپنے اس قول میں یہی سمجھانا چاہتے ہیں کہ اگر ارادے کامیابیوں کی سیڑھیاں نہ طے کرسکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارے دروازے بند ہوگئے ہیں، بلکہ اس ناکامی سے خدا کی معرفت کے دروازے کُھل جاتے ہیں اور یہ معرفت ہم پر حقیقی احساس اور شعور کے بے شمار در وا کر دیتی ہے۔ ارادے جب ٹوٹ جائیں، منصوبے جب نا کام ہوجائیں، پالیسیاں جب دھری کی دھری رہ جائیں تو ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ کوئی ذات توہے جوہمیں کنٹرول کررہی ہے، کوئی تو ہے جوہمیں اِس طرف نہیں اُس طرف لے جانا چاہتا ہے اور وہ ہمیں وہیں لے جانا چاہتا ہے جہاں فلاح اپنی بانہیں پھیلائے ہمیں اپنی آغوش میں لینے کی منتظر ہے۔ اسلام نے مایوسی کو پہلے ہی کفر قرار دے دیاہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ مایوسی معرفتِ الٰہی کے سارے دروازے بند کر دیتی ہے جب کہ مثبت سوچ و فکر ہمیں شکر و صبر کی عادی بناتی ہے اور اسلام شکر و صبر کا ہی تو دین ہے۔ گویا اب معنیٰ یہ ہوئے کہ حضرت علی الْمرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اپنے اس چار لفظی مختصر سے جملے میں اسلام کا پورا فلسفہ سمیٹ دیا ہے، مسلم اُمّہ کی ساری تقدیر و تدبیر اس کوزے میں بند کردی ہے۔ ہم اگر حسبِ بساط اس بلیغ، پر معنیٰ اور پُر فکر جملے پر غور کرتے چلے جائیں تو شعور و ادراک کے بے شمار موتی ہمارے سامنے رولتے نظر آئیں، بس شرط یہی ہے کہ سوچ مثبت ہو،حقیقت پسند ہو، غیر جانب دار ہو،منطقی ہو اور بے ہنگم خیالات سے پاک و صاف۔ خلیفۂِ راشدحضرت علی کا یہ قولِ مبارک وہ آئینہ ہے جس میں ہرمسلمان بلکہ ہر انسان اپنی فکر کی زُلْف برہم سنوار سکتا ہے اور مایوسیوں، ناکامیوں، نامرادیوں سے کوسوں دور رہ کر بہت خوش و خرم، مطمئن اور شان دار زندگی گزار سکتا ہے کیوں کہ اقوالِ علی رازِ حیات ہیں، کانِ حیات ہیں، شانِ حیات ہیں، منبعِ حیات ہیں، ماخذِ حیات ہیں،معنیِ حیات ہیں اور اساسِ حیات۔) روزنامہ اردوٹائمزممبئی، یکم اپریل ۲۰۱۸ء (

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi