علمی سطح ہر قوم مسلم کا بہتا خون


از افادات:حضرت مولانا پرر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی (بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنشنل ( مرتّب: وسمم احمد رضوی، نوری مشن مالگاشؤں جو کچھ برما مںا ہوا، جو کچھ کشمر مںض ہو رہا ہے، جو کچھ فلسطنہ مںو ہو رہا ہے، شام مںا جو کچھ ہو رہا ہے؛ اور اب قندوز کا پھلاض ہوا درد !… امّت لہو لہو ہے اور ۵۶؍ ، ۵۷؍ اسلامی ملکوں کے حکمران ہں کہاں؟ کاہ یہ چخ بھی نہں سکتے؟ آواز بھی نہںد اُٹھا سکتے؟ گاجر مولی کی طرح اس امّت کو کاٹا جا رہا ہے اور ہم ہر جگہ ظلم کا، جبر کا شکارہو رہے ہںں۔سرکیا (شام) کے اندر جو ظلم و ستم کی داستانںہ رقم ہو رہی ہںر؛پھر بد قسمتی یہ ہے کہ کچھ ممالک اپنے سطحی مفادات کے لےا اس قتلِ عام مںک شریک بھی ہںل ؎ گِلۂ جفائے وفا نما جو حرم کو اہلِ حرم سے ہے کسی بت کدے مں بارں کروں تو صنم بھی کہہ دے ہری ہری آج ہم اپنے سطحی مفادات کے لےب معصوم سی جانوں کا قتلِ عام کرنے پہ تُلے ہوئے ہںس۔ فلسطند کے اندر انسانتس کا بہتا ہوا خون کا دنا کے اندر امن کے ٹھکےں داروں کو نظر نہں آتا؟ شاتلا اور صَبرا کے کمپورں کے اندر پھلاک ہوا درد، کار یہ امّت محسوس نہںہ کرتی؟ کشمرک کے اندر ایک لاکھ سے زائد لوگ شہدں ہوگئے ان سترہ سالوں کے اندر۔ ۹۰؍ ہزار بچے یمکھ ہوگئے۔ ۲۳؍ ہزار سے زائد خواتنک بوّہ ہو گئںر۔ وہ وادیِ جنت نگاہ انگاروں میں لپٹی ہے۔ ڈل جھیل کے پانی پر لاشیں تیر رہی ہیں۔ وہ چناروں کی سر زمیں؛ آج خون سے لالہ زار بنی ہوئی ہے۔کیا پوری دنیا نابینا ہے؟ اس کی آنکھیں نہیں ہیں؟ کہاں ہے اقوامِ متحدہ؟ کہاں ہیں امن کے ٹھیکے دار؟کہاں ہیں انسانیت کے حقوق کی بات کرنے والے؟ کہاں ہیں انسانی تقدس کی کہانی کا نغمہ چھیڑنے والے؟ اور اب قندوز میں دیکھیے! معصوم سے حفاظِ کرام؛ جو دستارِ فضیلت لینے آئے تھے، سندِ شہادت بھی پا کے اِس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ۱۰۱؍ حفاظ شہید کر دیے گئے۔ یہ جو حفاظ، یہ طلبہ ہوتے ہیں؛ یہ جنّت کی چڑیا ہیں۔ ان کے لیے دنیا کا میڈیا نہیں بول رہا۔ میڈیا کا گَلا بیٹھ گیا ہے۔ چینل گُنگ ہوگئے ہیں… یہی حملہ کسی شراب خانے پہ ہوا ہوتا، یہی حملہ کسی اور جگہ پر ہوا ہوتا ؛ چیخ چیخ کے یہ لوگ آسمان سر پہ اٹھا لیتے، لبرل آنٹیاں ہاتھوں میں موم بتیاں لیے چوکوں پہ چراغاں کر رہی ہوتیں… کیا ان بچوں کو ماؤں نے نہں جنم دیا تھا؟ ا ن کے جسم مںو دوڑنے والا کاو انسانی خون نہںر تھا؟ یہ کسی کے لخت ِجگر نہںی تھے؟ ان مں سے زیادہ تر بچے تو وہ تھے جو یمںر تھے، جن کی بوںہ مائں اپنے حافظِ قرآن بچوں کی راہںی تک رہی تھں؟۔ امن کے ٹھکےی دار، جو بِلّومں اور کُتّوں کے حقوق پر تنظںبچ بنائیں، اُن کے حقوق کی بات کرتے ہں ۔ آج انسانتی کا یہ لُٹتا ہوا قافلہ انہںں کوںں دِکھائی نہں دیتا؟ وہ کومں نا بناو ہوگئے ہںں؟ انسانی حقوق کی تنظںںا ، یہ NGO's ،یہ چخں چخا کے انسانتو کا نوحہ پڑھنے والے مختلف چنلووں پہ؛ آج کہاں مَر گئے ہںک؟ ان کے سنےا مںر دھڑکتا ہوا دل نہں ہے؟ اور افسوس تو یہ ہے ۵۶؍، ۵۷؍ اسلامی ملکوں کے حکمران بے حس ہوگئے ہںس۔ انہںں کچھ دکھائی نہںت دے رہا۔ انسانتا لُٹ رہی ہے۔ انسانتو کا جنازہ اُٹھ رہا ہے۔ یہ معصوم سے پرندے، یہ ننھی کلانں، یہ حافظِ قرآن بچے، یہ طلبہ؛ اللہ کے مہمان ہںر۔ صححے حدیث مںا آتا ہے کہ طالبِ علم کے پاؤں تَلے اللہ کے نوری فرشتے پَر بچھاتے ہںا، جن پر رحمتںل اُترتی ہںم، جن کے نچےل فرشتے بھی پَر بچھارہے ہںں؛ تم نے ان پہ بم گرائے!!! … ثناء خوانِ تقدیس مغرب اب کہاں ہں ؟ انسانی حقوق کی بات کرنے والے اب کہاں ہںن؟ کاا یہ خون رائگاپں چلا جائے گا؟ کبھی رائگاسں نہں جائے گا۔ یہ خون کبھی بھی رائگایں نہںگ جائے گا۔ خون جب بہتا ہے تو جم جاتا ہے اور پھر اپنے اثرات چھوڑتا ہے۔ اسی خونِ شہدگاں سے چراغاں ہوگا اور اسی سے اِس امّت مںا بہار آئے گی۔ یہ خوش نصبے بچے جو سندِ فراغت پا کے اپنے گھروں کو جارہے تھے؛ ان کی بو ہ مائں ان کا انتظار کر رہی تھں؛، اور بٹےا جنّت سدھار گئے۔ مائں۔ منتظر رہںّ۔ کتنے خوش نصبئ لمحے ہںک! ہم بھی اس مرحلے سے گزرے ہںت۔ مَںو کہتا ہوں کہ جو حافظِ قرآن ہوتا ہے یا عالمِ دین بنتا ہے اس کے لےت اس کی شادی پر اُسے اتنی خوشی نہں ہوتی جتنی دستارِ فضلتا پہ ہوتی ہے۔ جب سر پر عزت کی دستار سجتی ہے؛ فرشتے بھی بلائںہ لے رہے ہوتے ہںس۔ حوریں بھی بلائںر لے رہی ہوتی ہں … بد نصبوا! تم نے کہاں ترت مارا اور دِل گھائل کر دیا…!!! اللہ تعالیٰ جل شانہٗ اپنی خاص رحمتوں سے ہم سب کو مالامال فرمائے۔ اور اس امّت کو کھویا ہوا وقار عطا کرے۔ اللہ! اس امّت کو عمرِ فاروق کا سایہ ہی عطا کردے۔ اللہ! اس امّت کو اتحاد دے۔ اس کو اتفاق و یگانگت کا نور دے۔ جب یہ امّت متحد ہوجائے گی تو پھر کوئی مینگ آنکھ سے بھی نہںن دیکھ سکے گا۔ لکنئ ہمارے افتراق نے، ہمارے انشقاق نے، ہماری باہمی لڑائوہں نے، ہماری جغرافاائی تقسم، نے ہماری فرقہ وارانہ لڑائویں نے دشمن کو دلرد کردیا ہے۔ آج حکمران صرف اپنے سطحی مفاد کے لئے، امّت کا بہتا ہوا خون گوارا کر رہے ہں ۔ عوام بے حس ہوگئی ہے۔ علما ایک دوسرے کے جبے پھاڑ رہے ہںا۔ ایک دوسرے کی دستاریں اُچھال رہے ہں ۔ منبر و محراب سے نفرت کے سبق دیے جارہے ہںی۔ کتنا نازک دور تھا اس امّت پر اور ہم کاح کر رہے ہں اور کاہ کرنے جارہے ہںر؟ ہماری سوچ ہماری Approach کا ہے؟ ہم اپنے اندازِ زندگی اور طرزِ معاشرت کو دیںھر کہ ہم کہاں کھڑے ہوئے ہںک۔ قوم کا ایک حصّہ مغرب زدہ ہوگاو ہے۔ مغرب کی نقالی پر فخر محسوس کرتا ہے اور حکمران دولت کے پجاری بن گئے ہںغ۔ اتنی دولت پوری دنات کے حکمرانوں نے لُوٹ لی ہے، لوگوں کے وسائل نچوڑ لےا ہںل، لکنت اس کے باوجود ان کے پٹل ہی نہںا بھر رہے ہںل! ہمارے تعلیور ادارے کلرک پدیا کر رہے ہںی۔ تعلم،؛ صرف روزی کمانے کے لے روٹی کمانے کے لےہ رہ گئی ہے؛ انسانتا کی تعمرص کے لےم نہںس رہ گئی۔ کس کس کا دُکھڑا کہں ،کہاں کہاں روئںے؟ جگہ جگہ سے تو خون بہہ رہا ہے۔ کوئی ایک شعبے مں بگاڑ ہو تو دور کاگ جاسکتا ہے۔ امّت سازی نہںا ہوئی۔ امّت کا تو تصور ہی رخصت ہوگاے ہے۔ ہم اُمّت کی بات کرتے ہںئ؛ بعض لوگ ہمارے دین مںو شک کرنے لگ جاتے ہں کہ آپ امّت کی بات کرتے ہںہ۔اللہ! اس امّت کو کھویا ہوا وقار دے۔ ہر شخص اپنے اپنے منصب کو سمجھے اور امّت کو جوڑنے کی کوشش کرے، توڑنے کی کوشش نہ کرے۔ مرڑے مالک ! وہ دن دور نہ رہںی؛ اب جلدی سے امام مہدی کو اس دنار میں بھجن دے۔ حضرت عیٰر کا نزول کردے، وقت کے دجال تر ے رسول ﷺ کی امّت کے گلے کاٹ رہے ہںگ۔ اے اللہ ! حضرت امام مہدی کے عساکر کو بھجت دے۔ حضرت عیٰی؛ کے عساکر کو بھجا دے۔ مںک تو اس انتظار مںن بٹھا ہوں۔ و ہی اس امّت کی بگڑی بنائںٹ گے اور اس کشتی کو ساحلِ مُراد پہ لائںک گے۔ ورنہ یہاں کاروبار کرنے والے ان مقدس ناموں پر بھی کاروبار کرتے ہں ۔ اور امّت کا تصور اور امّت کی اجتماعتم بھی دھندلی ہو کر رہ گئی ہے۔اللہ مجھے اور آپ کو اپنی رحمتوں کے سائے مںم رکھے۔ اٰمین ! بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم! (ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیرِ ترتبد)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi