نحوست اوراسلامی نقطۂ نظر


ازقلم: مفتی محمد منظرمصطفیٰ نازؔ اشرفی صدّیقی

ماریشس، افریقہ

اسلام مذہب حقائق،صداقتوں اور سچائیوں پر مشتمل دین ہے۔توہمات وخرافات، خیالی وتصوراتی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بدشگونی وبدگمانی اور مختلف چیزوں کی نحوست کے تصور واعتقادکی یہ بالکل نفی کرتا ہے۔ اسلام دراصل ایک اکیلے واحد اور ایسی قادرِ مطلق ذات پر یقین و اعتقاد کی تعلیم دیتا ہے، جس کے تنہا قبضۂ قدرت اور اسی کی تنہا ذات کے ساتھ اچھی وبری تقدیر وابستہ ہے۔آدمی کی اپنی تدبیریں یہ محض اسباب کے درجے میں ہوتی ہیں ان سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ سب کا سب اس ایک اللہ تعالیٰ کے کرنے سے ہوتا ہے، یہی اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، جس سے شرک وکفر، خرافات اور خیالی و تصوراتی دنیا کی بہت ساری بداعتقادیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے۔آج کل کی مشکل اور دشوار گزار زندگی میں غیروں کی توچھوڑیے غیروں کے ساتھ لمبے عرصے تک رہن،سہن کے نتیجے میں خود مسلمانوں میں بھی دنوں، مہینوں، جگہوں، چیزوں اور مختلف رسم ورواج کی عدم ادائیگی کی شکل میں بے شمار توہمات داخل ہو گئے ہیں کہ فلاں دن اور فلاں مہینہ منحوس ہوتا ہے فلاں رخ پرگھر بنانے یا سمت ورخ کے اعتبار سے اچھے یا برے کا اعتقاد کیاجاتا ہے، مختلف تقریبات بلکہ بچے کی پیدائش سے لے کر شادی تک، اس کے صاحبِِ اولاد ہونے،پھر اس کی عمر کے آخری مرحلوں سے گزر کر اس کے موت کے منھ میں میں چلے جانے، بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دفنانے بلکہ اس کے بعد بھی مختلف رسم ورواج کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس کی عدم ادائیگی کو نحوست کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ ان بے جا تصورات وخیالی توہمات کے ذریعے جانی، مالی، وقتی ہر طرح کی قربانیاں دے کر اپنے آپ کو بھاری بوجھ تلے دبا لیا جاتا ہے۔ غرضیکہ لوگوں نے ان توہمات و خرافات کی شکل میں زندگی کے مختلف گوشوں میں اس قدر بکھیڑے کھڑے کر دیے ہیں کہ شمار سے باہر ہیں۔ کیا کوئی منحوس ہو سکتا ہے؟ کسی شخص، کسی چیز،کسی جگہ، کسی وقت کو منحوس جاننے کی شریعتِ مطہرہ میں کچھ اصل نہیں، یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔

کسی کو منحوس قرار دینا کیسا؟ کسی شخص کو منحوس قرار دینے میں اس کی دل آزاری ہوتی ہے اور اس سے تہمت دھرنے کا گناہ بھی ہوتا ہے اور یہ دونوں جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ نبیِ کائنات ، فخرِموجودات سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کس مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تواس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ،پیپ اور خون میں رکھے گاجب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل نہ آئےَ۔(ابوداؤد،۳/۴۲۷)

سلطانِ دوجہاں ،نبیِ کون ومکاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من اذی مسلما فقد اذانی ومن اذانی فقداذی اللہ جس نے (بلاوجہِ شرعی)کس مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔ (المعجم الاوسط، ۲/۳۸۷)

یاد رکھیں کہ بندے کو پہنچنے والی مصیبتیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا:

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ﴿۲۲﴾ زمین میں اور تمھاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے(ہی) ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے بے شک یہ اللہ پر آسان ہے۔ (پارہ نمبر ۲۷، سورۃ الحدید، آیت نمبر ۲۲)

اور کوئی مصیبت اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی جیسا کہ فرمانِ عالی شان ہے:

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ؕ

ترجمہ:ہر مصیبت اللہ ہی کے حکم سے پہنچتی ہے۔

(پارہ نمبر ۲۸،سورۃ التغابن،آیت نمبر۱۱)

اور مصیبتیں آنے کا عمومی سبب بندے کے اپنے برے اعمال ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَمآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ﴿ؕ۳۰﴾

ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرمادیتا ہے۔(پارہ نمبر ۲۵، سورۃ الشورٰی، آیت نمبر ۳۰)

اور جب ایسا ہے تو کسی چیز سے بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اس کی نحوست سمجھنا درست نہیں اور کسی مسلمان کو تو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے کیوں کہ یہ تو مشرکوں کا سا کام ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایاکہ بد شگونی شرک (مشرکوں کا سا کام )ہے اور ہمارے ساتھ اس کا تعلق نہیں، اللہ تعالیٰ اسے توکّل کے ذریعے دور فرما دیتا ہے۔(ابوداؤد،۴/۲۳)

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جسے کسی چیز کی بدفالی نے اس کے مقاصد سے لوٹا دیا اس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایسا کرنے والا کیا کفارہ دے؟ ارشاد فرمایا کہ یہ کہے:

اَللّٰھَّمَ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ اے اللہ تیری فال کے علاوہ کوئی فال نہیں،اور تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔(یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے) (مسندِ امام احمد،۱/۶۸۳)

خیال رہے کہ احادیث میں بد شگونی کو شرک قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بدشگونی کے افعال کو مؤثرِ حقیقی جانے تو شرک ہے اور یا مشرکوں کا فعل ہونے کی وجہ سے زجر اور سختی سے سمجھانے کے طور پر شرک قرار دیاگیا ہے۔

شگون کی قسمیں اور اُن کا حکم:

شگون کا معنیٰ ہے فال لینا یعنی کسی چیز،شخص،یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا برا جاننا۔اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: (۱) برا شگون لینا (۲)اچھا شگون لینا۔

علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تفسیرِقرطبی میں نقل فرماتے ہیں: اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا۔یہ اس وقت اچھا ہے جب کلام اچھا ہو اور جب کلام برا ہو بدشگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہواور اپنا کام خوشی سے پورا کرے اور جب براکلام سنے تو اس کی طرف توجہ نہ دے اور نہ ہی اس کے سبب اپنا کام روکے۔(الجامع لاحکام القراٰن للقرطبی،۱۶/۱۳۲)

حضرت سیّدنا امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: بدشگونی لیناحرام اور نیک فال لینا یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔(الطریقۃ المحمدیّۃ ،۲/۱۷)

شگون کی مثالیں: اچھے شگون کی مثال یہ ہے کہ جیسے کسی کام کے لئے جارہے ہوں اور کسی بزرگ کی زیارت ہو جائے اس زیارت کو اپنے حق میں اچھا سمجھے اور ارادہ کرے کہ اب سب کام میں ان شاء اللہ تعالٰی کامیابی ملے گی اور برے شگون کی مثال یہ ہے کہ کسی راستے میں بلی نے راستہ کا ٹ دیا تو اس کو یہ سوچ کر یقین کر لیا کہ اب میرے لئے نقصان ہوگااور جانے کا ارادہ ترک کردے تو سمجھ لیجیے کہ برےشگون میں مبتلا ہوگیا ہے۔

موجودہ دور کی بدشگونیاں اور توہمات کی ایک جھلک: بلی کا راستہ کاٹنے، عورت کا اچانک سے سامنے سے گزرنے،کسی کام کے وقت اچانک چھینک کے آنے کو کام کے نہ ہونے کا سبب بتانا، جوتی کا جوتی پر چڑھ جانے کو سفرکا درپیش ہونا بتانا،آنکھ پھڑکنے کو کسی کام کے ہونے کی طرف بتانا،گھر پر کوّے کی چیخ کو مہمان کی آمد کا بتانا،الّو کی آمد کو نقصان کا باعث تصور کرنا، ہچکیوں کے آنے کو کسی کے یاد کرنے کو بتانا،دائیں ہاتھ میں خارش آنے کو مال کے آنے کا اور بائیں ہاتھ میں (خارش آنے کو) مال کے جانے کا سبب بتانا،تلوے میں خارش آنے کو سفرکا درپیش ہونا بتانا،وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے روز مرہ کی زندگی میں بے شمار تصورات وخیالات ہیں جو رات دن لوگوں سے سننے میں آتے ہیں، حالاں کہ یہ سب خرافات اور خود ساختہ باتیں ہیں، حقیقت میں بندے کو مصائب وغیرہ کا سامنا اس کے اعمال کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔ بہرحال مسلمانوں کو چاہیے کہ بدفالی ،بدشگونی اور غلط رسم ورواج سے سختی سے پرہیز کرے، ورنہ خود یہ چیزیں اس کی آخرت کی تباہی کا سبب اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہیں بلکہ ان کا نقد عذاب یہ ہوگا کہ وہ ہر وقت اور ہر قدم پر بدفالی،بدشگونی اور نحوست کے تصور سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہوگا،اور بے جا اپنے آپ کو پریشانیوں کا محل بنائے گا۔ اب اخیر میں اس کا علاج بھی ملاحظہ فرمالیجیے:

بدشگونی کا بہترین علاج: یہاں معاشرے میں پھیلی بدفال اور بدشگونی کا علاج ذکر کیا جارہا ہے،چناں چہ حضرت عروہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ مکرم ومحتشم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس شگون کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اس میں (نیک ) فال اچھی ہے اور مسلمان کو کسی کام سے نہ روکے۔ تو جب تم میں سے کوئی ناپسند چیز دیکھے تو یوں کہے:

اَللّٰھُمَّ لَایَاْتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّآ اَنْتَ وَلَا یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ اِلَّآ اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِکَ [اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں نہیں لاتااور تیرے سوا کوئی برائیاں دور نہیں کرتا، نہ ہمیں طاقت ہے نہ ہمیں قدرت ہے مگر تیری توفیق کے ساتھ۔(ابوداؤد ، ۴/۲۵)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں یہ عمل بہت ہی مجرب ہے ان شاء اللہ دعا کی برکت سے کوئی بری چیز اثر نہیں کرتی۔(مراٰۃ المناجیح، ۶/۲۲۲)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi