علامہ حبیب سالم شاطری


تحریر:مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

گذشتہ دنوں ۳۰؍ جمادی الاوّل ۱۴۳۹ھ/ ۱۷؍ فروری ۲۰۱۸ء شبِ ہفتہ ، علم و عمل کے پیکر، تریم حضرموت کے علما کے سرتاج، جامعہ رباط تریم کے مہتمم، سلسلۂ باعلویہ کے مرشدِ جلیل، ہزاروں علما کے استاذِ مکرم، عارف باللہ، سلطان العلما حضرت علامہ حبیب سالم بن عبداللہ بن عمر شاطری رحمہ اللہ تعالٰی جدّہ کے نجی ہسپتال میں انتقال فرما گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) اور دوسرے دن جنّت المعلٰی میں سپردِ خاک ہوئے۔

آپ کے والدِ ماجدعلامہ حبیب عبداللہ بن عمر شاطری رحمہ اللہ تعالٰیکا شمار حضرموت یمن کے اکابر علما و اولیائے کرام میں ہوتا تھا۔

آپ کی ولادت ۱۳۵۹ھ میں تریم یمن میں ہوئی، ابھی تقریباً دو سال کے تھے کہ والدِ ماجد علامہ حبیب عبداللہ بن عمر شاطری کا انتقال ہوگیا، اپنے والدِ ماجد کے جید تلامذہ سے اکتسابِ فیض کیا، جن میں سے علامہ حبیب علوی بن عبداللہ بن شہاب، علامہ حبیب محمد بن سالم بن حفیظ، شیح محفوظ بن سالم بن عثمان، علامہ حبیب عمر بن علوی کاف، علامہ شیخ محمد عوض حداد، علامہ حبیب جعفر بن احمد عید روس، علامہ حبیب سالم بن احمد بن جندان وغیرہم شامل ہیں۔

۱۳۷۶ھ میں علم ِدین کے حصول کے لیے مکہ مکرمہ ہجرت کی اور علامہ سیّد علوی بن عباس مالکی مکی ، علامہ حسن بن محمدمشاط مکی ، علامہ سیّد سالم بن طلب عطاس، علامہ حسن بن محمدفدعق باعلوی، شیخ ابوبکر بن سالم بار، شیخ محمد نور سیف ہلال مکی، شیخ محمد یاسین فادانی، شیخ حسن بن سعید یمانی سے علومِ دینیہ کی تکمیل کی۔

۱۳۸۱ھ میں واپس اپنے ملک یمن تشریف لائے اور شہر عدن میں تبلیغِ دین اور تدریس علوم دینیہ سے وابستہ ہوگئے اور ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۶ء تک عدن میں ہی قیام پزیر رہے، یہاں تک کہ ملکی حالات خراب ہوگئے اور آپ کو جیل منتقل کردیا گیا۔

۱۴۰۳ھ میں آپ نے مدینۂ منورہ ہجرت کی، جہاں آپ کے دوست علامہ حبیب زین بن ابراہیم بن سمیط اور آپ نے مل کر گھر میں مدرسہ قائم کرکے تدریس شروع کردی۔ اس دوران دنیا کے مختلف ممالک مثلاً متحدہ عرب امارات، مسقط عمان، اردن، انڈونیشیا، سنگاپور، برونائی، سری لنکا، افریقہ، مصر، اردن شام وغیرہ کے تبلیغی دورے کیے۔

۱۹۹۰ء میں جب یمن کے ملکی حالات بہتر ہوئے تو آپ واپس اپنے شہر تریم حضر موت تشریف لائے اور اپنے برادرِ اکبر علامہ سیّد حسن بن عبداللہ شاطری رحمہ اللہ کے ہمراہ اپنے والدِ ماجد کے قائم کردہ جامعہ رباط تریم (جو ملکی حالات کی وجہ سے تقریباً ۱۲ سال تک بند رہا) میں آکر تدریس شروع کردی اور آخری ایام تک یہی فریضہ سر انجام دیتے رہے۔

تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے بعض کتب بھی تالیف فرمائیں، جن کے اَسما، یہ ہیں:

۱۔ الفوائد الشاطریۃ من النفحات الحرمیۃ

یہ اُن دروس کا مجموعہ ہے جو آپ نے اپنے اساتذہ بالخصوص علامہ سیّد علوی بن عباس مالک مکی رحمہ اللہ کی خدمت میں ر کر تحصیلِ علم کے دوران نقل کرتے رہے۔ اس مجموعے کی ابتدائی پانچ جلدیں طبع ہوچکی ہیں جن میں سے دو جلد تفسیر، علومِ قرآن، جبکہ تین جلد علم حدیث پر مشتمل ہیں باقی دس جلدیں طباعت کے مراحل میں ہیں۔

۲۔ نظم بعض المسائل و الضوابط الفقھیۃ

بعض فقہی مسائل اور قوانین فقہ کو نظم میں پرو یا گیا ہے۔

۳۔ نیل المقصود فی مشروعیۃ زیارۃ نبی اللہ ھود (علیہ السلام)

اس رسالے میں حضرت سیّدنا ہود علیہ السلام کے مزارِ پُر انوار کی زیارت کی شرعی حیثیت بیان کی گئی ہے، ردِّ وہابیہ پر اہم کتاب ہے۔ کیوں کہ حضرت سیّدنا ہود علیہ السلام کا مزار پر انوار حضر موت یمن میں واقع ہے، الحمدللہ احقر راقم الحروف کو ۲۰۰۷ء میں دارلمصطفیٰ تریم حضرت موت میں منعقد دورۂ تصوف میں شرکت کا موقع ملا، اس دوران دیگر مزاراتِ مقدسہ کی زیارت کے ساتھ حضرت سیّدناہود علیہ السلامکے مزار پُرانوار کی زیارت کا شرف بھی ملا۔

۴۔ قصۃ موامرۃ الاغتیال والاعتقال:

اس رسالے میں انہوں نے جیل میں گذاری گئی اپنی زندگی کے احوال ذکر فرمائے ہیں۔

آپ کے شاگرد شیخ فارس محمد بن ابو بارعۃ نے آپ کی اسانید و ثبت کو ترتیب دیا ہے جو ’’نفحات المسک العاطری بثبت و اسانید الحبیب العلامۃ سالم بن عبداللہ الشاطری‘‘ کے نام سے مطبوع ہے، جس میں علامہ شیخ حبیب سالم بن عبداللہ شاطری رحمہ اللہ کی عرب کے کثیر مشائخ سے حاصل شدہ جمیع مرویات و اجازات و اسناد کا ذکر ہے، جس میں ’’مسلسلات‘‘ کے باب میں ایک حدیث ’’المسلسل بتقبیل الابہامین‘‘ بھی درج ہے، جس میں راوی کہتا ہے کہ اس نے اپنے شیخ کو دورانِ اذان ’’اشھد ان محمد رسول اللہ‘‘ میں نامِ مبارک پر انگوٹھے چومتے دیکھا، اس طرح اس کے شیخ نے اپنے شیخ کو اس طرح کرتے دیکھا اور یہ سلسلہ صحابۂ کرام﷡ تک متصل ہے۔ اس حدیث ’’المسلسل بتقبیل الابہا مین‘‘ کی سند میں چند مشہور محدثین کے اسما لکھے ہیں، جو درجِ ذیل ہیں:

۱۔خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ سیّد محمد علی بن حسین مالکی مفتی مکہ مکرمہ

۲۔ علامہ سیّد احمد بن زینی دحلان مکی (استاذِ اعلیٰ حضرت)

۳۔ علامہ شیخ عبدالرحمٰن بن محمد کزبری صغیر

۴۔ امام حافظ ابنِ حجر عسقلانی، امام زین الدین عراقی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

اس فقیر راقم الحروف کو بھی آپ سے اس کتاب و جملہ اجازت و اسانید کی اجازت حاصل ہے۔ فقیر نے اس سے قبل ۲۰۱۰ء میں ’’محفلِ میلاد اور علمائے عرب‘‘ میں علامہ حبیب سالم شاطری رحمہ اللہ کے مختصرحالات اور محفل میلاد النبی ﷺ کے جواز پر آپ کا فتویٰ بھی درج کیا تھا۔

یہ آپ کی کرامت تھی کہ جنت المعلیٰ شریف میں تدفین بند کردی گئی اور اسی طرح آپ کا انتقال جدہ میں ہوا۔ مگر اس کےباجود آپ کی نعش مبارک مکہ شریف لائی گئی بلکہ تدفین بھی جنت المعلی میں ہوئی۔ وقتِ تدفین سادات وعوام کا ایک جم غفیر تھا جو ذکر اللہ سے اپنی زبانوں کو تر کیے ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ کریم ﷺ کے وسیلۂ جلیلہ سے آپ کی جملہ خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اس پر اجرِ عظیم عطا فرمائے اور آپ کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطا فرمائے ۔

اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi