بی بی حلیمہ کا گھر


حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حیات و خدمات

نام ونسب: اسم گرامی: حلیمہ سعدیہ۔سلسلۂ نسب: حلیمہ بنتِ ابو ذویب بن عبد اللہ بن حارث بن شجنۃ بن جابر بن رازم بن ناصرۃ بن فصیۃ بن نصر بن سعد بن بکر بن ھوازن بن منصور بن عکرمۃ بن خصفۃ بن قیس بن عیلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا تعلق بنی سعدقبیلے سےتھا،اور یہ قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ تھا،جو اپنی فصاحت و بلاغت میں جواب نہیں رکھتا تھا۔حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کا نام حارث بن عبدالعزیٰ بن رفاعۃ بن ملان بن ناصرۃ بن فصیۃ بن نصر بن سعد بن بکر بن ھوازن الیٰ آخرہ۔(سیرت ابن ہشام)

حضرت حلیمہ سعدیہ کا قبولِ اسلام: فتحِ مکہ کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہااپنے شوہر اور بیٹے کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو رسول اﷲﷺنے ان کے لئے اپنی چادر مبارک کو زمین پر بچھا کر ان کو اس پر بٹھایا اور انعام واکرام سے بھی نوازا اور یہ سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔اسی طرح ان کے شوہر اور اولاد سب مسلمان ہوگئے تھے۔(الاستیعاب ،باب النساء،باب الحاء ۳۳۳۶،حلیمۃ السعدیۃ،ج۴،ص۳۷۴/ سبل الھدیٰ والرشاد جلد اول: 347))

حافظ دمیاطی ﷫ نے کیا خوب فرمایا ہے:

اضحت حلیمہ تزدھی بمفاخر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مانا لھا فی عصر اثنان

منھا الکفالۃ والرضاع و صحبۃ ۔۔۔۔ والغایۃ القصوی رضا الرحمن

ترجمہ: حضرت حلیمہ ان مفاخر پر فخر کرنے لگیں،جو ان کے زمانے میں دو افراد بھی حاصل نہ کرسکے،وہ مفاخر حضورﷺ کی کفالت، رضاعت اور صحابیت ہے۔بلند مقصد رب تعالیٰ کی رضا ہے وہ انہیں حاصل ہوگئی۔

حضرت حلیمہ سعدیہ کی اولاد: آپ کے ایک صاحبزادے کا نام عبداللہ بن حارث﷜،اور دو صاحبزادیاں انیسہ بنتِ حارث اور شیما بنتِ حارث۔رضی اللہ عنہم۔آپ کی تمام اولاد نے اسلام قبول کرلیا تھا۔(مراٰۃ المناجیح،8/20)

شرفِ رضاعت: سب سے پہلے حضور ﷺ نے ابو لہب کی لونڈی ’’حضرت ثویبہ‘‘ کا دودھ نوش فرمایا پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے دودھ سے سیراب ہوتے رہے، پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ ﷺ کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔ (مدارج النبوۃ ،ج،2 ص،18)

قریش اور دیگر رؤسا کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے والی عورتوں کے سپرد کرتے۔ تاکہ بچوں کو صحرا کا قدرتی ، فطری اورصاف ستھرا ماحول میسر ہو اور وہ تندرست و توانا ہوں۔شرفاءِ عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے گردو نواحدیہاتوں میں بھیج دیتے تھے۔ دیہات کی صاف ستھری آب وہوامیں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی، اور وہ خالص اور فصیح عربی زبان بھی سیکھ جاتے تھے۔حضرت عمر ﷜ مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتےتھے: ’’تمعددوا وتمعززوا واخشوشنوا‘‘۔اے مسلمانو! معد کا تن وتوش پیدا کرو۔مشقت طلبی کو اپنا شعار بناؤ،اور اپنے جسم اور اعصاب کو سخت بناؤ۔مفکرِ اسلام شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے اس ارشادِ فاروقی سے استفادہ کرتےہوئے،اپنی قوم کےنوجوانوں کو یہ نصیحت فرمائی:

؎ رگ سخت چو شاخ آھو بیار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تن نرم و نازک بتیہو گزار

’’اپنے اعصاب کو ہرن کے سینگوں کی طرح مظبوط بناؤ،نازک اور نرم جسم تمہیں زیب نہیں دیتا۔یہ چیزیں کبک(نازو نخرے والا تیتر) کو زیب دیتی ہیں،مؤمن کے شایانِ شان نہیں‘‘۔صدحیف! کہ آج کے نوجوانوں کے فیشن اور نزاکت کو دیکھ کر تو صنفِ نازک بھی شرماجاتی ہیں۔

مل گئے مصطفیٰ ﷺاور کیا چاہئے: حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ’’بنی سعد‘‘کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی۔ اس سال عرب میں بہت سخت قحط پڑا ہوا تھا، میری گود میں ایک بچہ تھا، مگر فقر و فاقہ کی وجہ سے میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کو کافی ہو سکے۔ مگر اس کا بھی دودھ نہ تھا۔ مکہ مکرمہ کے سفر میں جس خچر پرمیں سوار تھی وہ بھی اس قدر لاغر تھا کہ قافلہ والوں کے ساتھ نہ چل سکتا تھا میرے ہمراہی بھی اس سے تنگ آ چکے تھے۔ بڑی بڑی مشکلوں سے یہ سفر طے ہوا جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا تو جو عورت رسول اللہ ﷺ کو دیکھتی اور یہ سنتی کہ یہ یتیم ہیں تو کوئی عورت آپ کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی،کیونکہ بچے کے یتیم ہونے کے سبب سے زیادہ انعام و اکرام ملنے کی امید نہیں تھی۔ حضرت حلیمہ ﷞اس دُرِّیتیم کو لے کر آئیں۔

ایک دوسری روایت میں ہے: جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا مکہ مکرمہ میں داخل ہوئیں تو جنابِ عبدالمطلب سے ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا تم کون ہو۔میں نے کہا بنی سعد کی ایک خاتون ہوں۔انہوں نے نام پوچھا تو میں نے بتایا حلیمہ۔یہ سن کر حضرت عبدالمطلب فرطِ مسرت سے مسکرانے لگےاور فرمایا: ’’بخ بخ سعد و حلم خصلتان فھما خیر الدھر وعزالابد‘‘۔واہ واہ۔ سعد اور حلم۔کیا کہنا یہ دو خوبیاں ہیں۔جن کی زمانہ بھر کی بھلائی اور ابدی عزت ہے۔’’سبل الھدیٰ‘‘ میں ہے کہ حضرت عبدالمطلب کو بذریعہ اشارۂ غیبی رب العلمین کی طرف سے حکم تھا کہ جنابِ عبداللہ﷜ کے لختِ جگرکو حضرت حلیمہ کے سپرد کرنا۔(سبل الھدیٰ والرشادجلد اول:349)

حجرِ اسود نےمصطفیٰ کریمﷺ کا بوسہ لیا: جب حضرت حلیمہ نے اجازت لےکر حضور ﷺ کو سینے سے لگایا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنےکےلئے خانہ کعبہ کے طواف کی طرف گئیں۔فرماتی ہیں میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ ساری دنیا حجر اسود کو چومتی ہے لیکن حجر اسود اپنی جگہ سے نکل کر حضورﷺ کو چومنا شروع کردیا۔’’فخرج الحجر الاسود من مکانہ حتیٰ التصق بوجہہ الکریم‘‘۔(تفسیرالمظہری،جلد6،ص،528)۔ جب سواری تیز چلی تو عورتوں کی حیرت کی انتہاء نہ رہی اور انہوں نے پوچھا:’’الیس ھذہ اتانک التی کنت خرجت علیھا‘‘۔ کیا یہ وہی سواری ہے جو لےکر آئی تھی؟ فرمایا سواری وہی ہے سوار بدلا ہواہےجو لےکر جارہی ہوں۔(ایضا:528)

قبیلۂ بنی سعد میں برکاتِ مصطفیٰﷺ: حضرت حلیمہ نے پہلی برکت تو اسی وقت دیکھ لی تھی جب انہوں نے اپنی خشک چھاتی پیش کی تو وہ دودھ سے لبریز ہوگئی۔حجر اسود کا بوسہ لینا،اونٹنی اور دراز گوش کا تیز چلنا۔اونٹنی کے خشک تھن دودھ سے بھر گئے۔ پہلے ہی دن شام کو حلیمہ کے شوہر نے کہا وقت ہوگیا ہے اونٹنی کا دودھ دوھ لوں۔معمول کے مطابق چھوٹا سا برتن لےکر جب دودھ دوہنے لگے تو نہریں جاری ہوگئیں۔گھر کےتمام برتن بھر گئے۔جو چند قطروں کو ترستے تھے۔اب ان سے دودھ سنبھالا نہیں جارہا تھا۔خوشی سے جھوم کر حضرت حارث کہنے لگے: ’’واللہ یا حلیمۃ! لقد اخذت النسمۃ المبارکۃ‘‘۔(محمد الرسول اللہ:30)

یہ برکتیں صرف حضرت حلیمہ کےگھر تک محدود نہ تھیں،بلکہ پورا علاقہ مستفیض ہوا۔آپ خود فرماتی ہیں: ’’والقیت محبتہ و اعتقاد برکتہ فی قلوب الناس حتی ان احدھم کان اذا نزل بہ اذی فی جسدہ اخذ کفہ فیضعھا علی موضع الاذیٰ فیبرا باذ ن اللہ تعالیٰ سریعاً‘‘۔یعنی لوگوں کے دل میں(قدرت کی طرف سے) آپ کی محبت اوربرکت کا اعتقاد ڈال دیا گیا،یہاں تک کہ جب کوئی بیمار ہوتا تو حاضر ہوکر آپ کا ہاتھ مباک تکلیف کی جگہ پہ رکھتا تو اللہ تعالیٰ فوراً ہی شفا دےدیتا۔(السیرۃ النبویۃ،لدحلان جلد اول:491)

سبل الھدیٰ میں ہے:

لقد بلغت بالھاشمی حلیمۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقاما علا فی ذروۃ العز والمجد

و زادت مواشیھا واحصب ربعھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقد عم ھذالسعد کل بنی سعد

ترجمہ: حضرت رسولِ ہاشمیﷺ کی برکت سے حضرت حلیمہ سعدیہ عزت و شرف کی رفعتوں پر فائز ہوگئی۔ان کے جانوروں میں اضافہ ہوگیا۔ان کا علاقہ شاداب ہوگیا۔سارے بنو سعد میں یہ سعادت عام ہوگئی۔ ’’ما بقی منزل من منازلِ بنی سعد الا وقد شموا ریح المسک منہ‘‘۔یعنی بنو سعد قبیلے کا کائی گھر ایسا نہیں تھا جس میں خوشبو نہ پھیل گئی ہو۔حالانکہ یہ قبیلہ کئی میل علاقے پر مشتمل تھا۔اسی طرح حضرت حلیمہ فرماتی ہیں:’’ لا اعلم ارضا من الاراضی اللہ اجدب منھا‘‘۔اس وقت عرب میں ہمارے قبیلۂ بنو سعد کی زمینوں سے زیادہ بنجر و خشک زمیں کوئی نہ تھی۔آپ کی برکت سے ہماری بنجر زمینیں شاداب ہوگئیں۔مصطفیٰ کریمﷺکے رضاعی بھائی بہن کہتے ہیں: ’’ان اخی الحجازی اذا وقف بقدمیہ علی الوادی یخضر لوقتہ‘‘۔ہمارا حجازی بھائی جس وادی میں اپنا قدم رکھتے اسی وقت اس جگہ سبز اُگ آتا۔اور پتھریلی زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی۔(شانِ مصطفیٰ: 312)

عورتوں نے حضرت حلیمہ سے پوچھا(تم بڑی فضول خرچ ہوگئی ہو! پہلے تو چراغ ہی نہ جلتاتھا) اب تیرے گھر میں ساری رات روشنی ہوتی ہے۔آپ نے فرمایا:’’واللہ ما اوقد نارا الانور وجہ محمد ﷺ‘‘۔ہم تو کوئی چراغ وغیرہ نہیں جلاتے۔بلکہ یہ تو میرے نورِ نظر محبوبِ رب اکبرﷺکے چہرہ ٔانور کی روشنی ہوتی ہے۔پھر فرمایا: ’’ما کنا نحتاج السراج من یوم اخذناہ لان نور وجھہ کان انور من السراج،فاذا احتجنا الی السراج فی مکانہ جئنا بہ فتنورالامکنۃ ببرکتہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔یعنی جب سے ہم حضورﷺ کو اپنے گھر لائے ہیں ہمیں چراغ کی ضرورت ہی نہ پڑی۔کیوں کہ آپ کانور چراغ کے نور سے زیادہ روشن وصاف ہے۔جب ہمیں کسی جگہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔تو ہم آپ کو وہاں لےجاتے ہیں،آپ کی برکت سے اندھیرے روشنیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتی ہیں: ’’کان ینزل علیہ کل یوم نور کنور الشمس ثم ینجلی عنہ‘‘۔یعنی سورج کی طرح ایک نور روزانہ آپ پر اترتا،کچھ دیر بعد چھٹ جاتا۔(السیرۃ النبویہ للدحلان)۔پھر فرمایا:’’ ثم رأت غمامۃ تظلہ اذا وقف وقفت واذا سار سارت‘‘۔پھر ایک بادل دیکھا وہ آپ پر سایہ کرتا تھا۔آپ چلتے تو وہ چل پڑتا،رکتے تو ٹہر جاتا۔(ایضا)یہی کیفیت چاندکی تھی۔انگلی کے اشارے پر چلتاتھا۔

آپﷺ کی رضاعی بہن شیما کی خوشی کی تو کوئی حد ہی نہ تھی۔کبھی کھلاتی، کبھی پلاتی،کبھی معصومانہ خوشی کے اشعار سے دل بہلاتی، کبھی محبت بھری لوریاں دیتی۔جب حضورﷺ تھوڑی دیرزیادہ سوجاتے،تو حضرت شیما فرماتی: ’’قم قم یا حبیبی کم تنامی ‘‘۔ کہ کرجگاتیں۔اٹھ اٹھ محبوب! کتنا سوئے گاہم تو تمھارے بغیر اداس ہوجاتے ہیں۔پھر ان کی وہ معصومانہ لوریاں جو تاریخی کتب میں موجود ہیں۔ان میں محبت و لطف کے ایسےجذبات ہیں جنہیں سن کر آج بھی بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

فرماتی ہیں:

یا ربنا ابق لنا محمدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حتی اراہ یافعا و امردا

ثم اراہ سیدا مسودا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واکبت اعادیہ معا والحسدا

واعطہ عزا یدوم ابدا

ترجمہ: اے ہمارے رب! میرے بھائی محمدﷺ کو ہمارےلئے سلامت رکھ یہاں تک میں آپ کو جواں دیکھوں۔یہاں تک کہ میں آپ کو اپنی قوم کا سردار دیکھوں۔جس کی سب اطاعت کررہے ہوں۔اے میرے رب! اس کے دشمنوں اور حاسدوں کو ذلیل و رسوا کر،اور انہیں وہ عزت عطاء جو تا ابد باقی رہے۔

حضرت حلیمہ کی بکریاں چرانا: حضرت حلیمہ فرماتی ہیں۔ایک دن اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ مجھے فرمایا: ’’امی جان، میں دن کے وقت اپنے بھائیوں کو کیوں نہیں دیکھتا؟‘‘ حضرت حلیمہ نے عرض کی: ’’وہ ہماری بکریاں چرانے جاتے ہیں۔وہ شام تک اس لئے باہررہتے ہیں۔آپ نے فرمایا:’’ مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا کریں۔آپ خوشی خوشی اپنے بھائیوں کے ساتھ تشریف لےجاتےتھے۔ابو نعیم فرماتے ہیں: آپ ﷺ کی برکت سے حضرت حلیمہ کی بکریاں سیر ہوکر لوٹتی تھیں۔شام کو ان کے تھن دودھ سے لبریز ہوتےتھے۔وہ پیٹ بھر کر خوب دودھ نوش کرتے،حالانکہ دوسرے لوگوں کے ریوڑ بھی واپس آتے،ان کی کھیریوں سے دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکتا تھا۔وہ لوگ اپنے چرواہوں کو ڈانٹتے اور کہتے کہ تم ہماری بھیڑ بکریاں وہاں کیوں چراتے جہاں ابوذویب کی بیٹی کی بکریاں چرتی ہیں۔انہیں کیا خبرتھی یہ سب برکتیں تو مصطفیٰﷺ کی ہیں۔حضرت حلیمہ فرماتی ہیں: ’’ایک دن میں حضورﷺ کو گود میں لئے بیٹھی تھی۔بکریوں کا ایک ریوڑ میرے قریب سے گزرا۔ان میں سے ایک بکری آگے آئی،اور حضورﷺ کو سجدہ کیا،اور میرے سر مبارک کو بوسہ دیا،پھر بھاگ کر دوسری بکریوں میں شامل ہوگئی‘‘۔ (ضیاء النبی جلددوم:69)

حضرت حلیمہ فرماتی ہیں: ’’واذا جاء الی البئر و نحن نسقی الاغنام ،یعلو الماء الی فم البئر۔وکانت تسمع (حلیمہ) الا حجار تنطق بسلامھا علیہ والاشجار تحن باغصانھا علیہ‘‘۔یعنی جب کنوئیں پہ بکریوں کو پانی پلانے جاتے تو پانی خود ہی کناروں تک آجاتا۔اسی طرح حضرت حلیمہ پتھروں کا آپ پر سلام خود سنا کرتیں۔درخت اپنی ٹہنیاں خود بخود جھکا دیتے۔(تاکہ آپ کی بکریاں پتے کھالیں،اور آپ کو پتے اتارنے اور جھاڑنے میں کی زحمت نہ ہو۔ پھر ایک اور مقام پر فرمایا: اذا قام فی الشمس ظلتہ الغمام تاتی الوحوش الیہ وھو قائم فتقبلہ لایمر علی شجرولاحجر الا سلم علیہ۔اذا مشیٰ علی الصخر یغوض تحت قدمیہ کالعجین۔یعنی جب اللہ کے حبیبﷺ دھوپ میں کھڑے ہوتے تو فوراً بادل سایہ کردیتا۔جانور قدموں میں کو بوسہ دیتے،پتھر سلام کرتے،سخت پتھر پر کھڑے ہوتے تو وہ آٹے کی طرح نرم ہوجاتا۔(تفسیر مظہری جلد،6،ص،528)

شقِ صدر: ایک دن آپ ﷺ چراگاہ میں تھے کہ اچانک آپﷺ کا رضاعی بھائی دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے گھر پر آئے اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا کہ اماں جان! بڑا غضب ہو گیا، محمدکو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوئے تھے، لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور ان کے شوہر دونوں گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ ﷺبیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے،حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہرنے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے چمٹار کر پوچھا کہ بیٹا! کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھے کر میرا شکم چاک کرکے اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کرشگاف کو سی دیالیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔(سیرت ِ مصطفیٰﷺ:65)۔سرکارِ دوعالمﷺکا چار مرتبہ مقدس سینہ چاک کیا گیا،اور اس میں علم و حکمت کا خزینہ بھر اگیا۔پہلی مرتبہ: حضرت حلیمہ کےگھر۔دوسری مرتبہ: دس سال کی عمر میں۔تیسری مرتبہ: غارِ حرا میں۔چوتھی مرتبہ: شبِ معراج۔(ایضا:66)۔قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ’’الم نشرح لک صدرک‘‘سے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

حضرت حلیمہ سعدیہ پر حضورﷺ کا کرم: ابن سعد نے حضرت محمدبن منکدر﷫ سے روایت کیا ہے: انہوں نے کہا: ’’ایک عورت بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوئی۔وہ آپ کی رضاعی امی جان(حضرت حلیمہ)تھیں۔جب وہ آپﷺ کے پاس آئیں،تو آپﷺ ’’امی امی‘‘ کہ کر اٹھے۔اپنی چادر بچھادی اور حضرت حلیمہ اس پر بیٹھ گئیں‘‘۔(سبل الھدیٰ والرشاد،جلد اول: 345)۔ حافظ ابن الجوزی نے ’’الحدائق‘‘ میں لکھا ہے: کہ حضرت حلیمہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔اس وقت آپ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا سے نکاح فرمالیا تھا۔انہوں نے قحط سالی کی شکایت کی۔آپ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے تعارف کروایا تو انہوں نے حضرت حلیمہ کو چالیس بکریاں اور کچھ اونٹ عطا کیے۔(ایضا: 346)

وصال و مدفن: آپ کے سنِ وصال کے بارے میں کوئی روایت نہیں ملتی۔البتہ کچھ مؤرخین نے 8ہجری نقل کیا۔قاضی عیاض مالکی ﷫ نے ’’شفاء شریف‘‘ میں عمر بن سعد کی روایت سے یہ بیان فرمایا ہے:’’عن عمر بن سعد مرسلا قال: جاءت ظئر النبي صلى الله عليه وسلم، فبسط لها رداءه، وقضى حاجتها، ثم جاءت أبا بكر ففعل ذلك، ثم جاءت عمر ففعل ذلك.اهـ‘‘۔اس سے تو یہ ثابت ہوتاہے کہ ان کا وصال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ہوا ہوگا۔آپ کا مدفن جنت البقیعمدینۃ المنورہ میں ہے۔

نجدیوں کی ستم گری

ماہِ فروری 2018ء کے دوسرے عشرے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اہم ملک ابوظہبی میں دو اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔دونوں واقعات مسلمانانِ عالم کےلئے سیاہ ترین اور نہایت افسوسن ناک ہیں۔آلِ سعود نےاپنی باطنی خباثت اور عدواتِ رسولﷺکی وجہ سے’’قبیلۂ بنی سعدمیں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھاکے مبارک مکان کے آثار اور اس سے ملحقہ علاقے میں امام الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمدمصطفیٰﷺ سے پندرہ سوسال پہلے کی وابستہ یادوں کو مٹاکر اپنے سیاہ کارناموں میں ایک اور اضافہ کردیا ہے۔ان کو یہ جرأت اس لیے ہوئی کہ انہوں نے اس سے قبل ’’ابلیسی توحید‘‘ کی آڑ میں مکہ معظمہ،مدینۃ المنورہ اور طائف میں آثارِ رسولﷺ اور آثارِ صحابۂ و اہل ِ بیت و سلفِ صالحین کو ختم کرکے اپنے مغربی آقاؤں اور بالخصوص اپنے یہودی مربیوں کو خوش کیاتھا۔عالم اسلام میں خلفشار و انتشار اور ذرائعِ ابلاغ کی کمی کی وجہ سے جیسا رد عمل ہونا چاہئے تھا ویسا نہ ہوسکا۔اسی سے ان کو مزید حوصلہ ملا۔یہ آثارکرید کرید کر مٹاتے چلےگئے۔لیکن ابھی جو کچھ ہوا ہے اس پر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کی بے حسی و خاموشی پر نہایت افسوس ہے۔نہ کوئی احتجاج ہوا،اور نہ ہی اس پر کوئی رد عمل ظاہر کیا گیا۔پوری دنیا کی اقوام اپنے آثارِ قدیمہ کی حفاظت کرتی ہیں۔لیکن یہ نجدی ایسے بدبخت ہیں کہ یہ مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے علاوہ پوری دنیا میں انبیاء علیہم السلام، صحابۂ کرام اور اہل بیت عظام اور سلفِ صالحین کے عالی شان مقبرےصدیوں سے موجود ہیں۔شروع سے اہل اسلام اپنے اکابرین کے آثار سے برکت حاصل کرتے آرہے ہیں۔

میلاد شرک اور ویلنٹائن ڈے جائز:

اسی ہفتے میں سعودی عرب سرکردہ عالم اور امر بالمعروف ونہی عن النکر کمیٹی کے ڈائریکٹر’’جنرل قاسم الغامدی‘‘نے 14/فروری 2018ء کو اپنے بیان میں کہا:’’ویلنٹائن ڈے منانے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے‘‘۔(روزمانہ دنیا کراچی،15/فروری/2018)۔یہ انٹرنیٹ پر بھی یہ بیان موجود ہے۔بے حیائی کا عالمی دن جس میں فحاشی و عریانی کا بازار گرم کیا جاتاہے۔بالخصوص یہ غیر مسلموں کا تہوار ہے۔اس کے منانے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔اس کے جواز کا بیان کیوں دیا تاکہ ہمارے مغربی آقا خوش ہوجائیں۔

اس کے علاوہ حجاج و معتمرین وزائرین کے پیسوں سے ان کی عیاشیاں،بے حیائیاں،غیر اسلامی و فیشنی داڑھیاں،اور خرافات،اور غیر اسلامی و غیر اخلاقی اقدامات،یہود ونصاریٰ سے تعلقات، فلسطین،شام اور عراق ویمن پر مسلمانوں پر مظالم کی درپردہ حمایت اور خاموشی،جنت البقیع،جنت المعلی اور شہداء احد و بدر کے مزارات و قبور کی مسماری،اور مخدومۂ کائنات حضرت سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی بے حرمتی، سیدۃ النساء خاتونِ جنت اور امہات المؤمنین کے مزارات پر بلڈوزر اور اپنے نیچے لینڈ کروزر،آثارِ صالحین مٹانا اور اپنے عالی شان و پر شکوہ محل بنانا،اور ان کے ہاں دیارِ غیر کے مظلوم مزدوروں پر مظالم ڈھانا،اور ان کے عالی شان محلات،اور ان کے اندر غلام۔شیطانی صفت اور عالمی دہشت گردوں کے سردار ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کی آمدپر ’’سعودی ولی عہد و نجدی ملاؤں سمیت جشن و رقص‘‘اور پھر اس کو مسلمانوں کے قتل،امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی اور فلسطین میں اسرائیلی دارالحکومت کی منتقلی،بیس لاکھ افغانی اور گیارہ لاکھ عراقی مسلمانوں کے خون بہانے اور ان کی عزتیں تارتار کرنے پر سعودی عرب کاسب سے بڑا’’اعزاز،اور گولڈمیڈل‘‘ پیش کیا گیا۔اس کے دورے کا جشن اور اسلام دشمنی پر تمغے و اعزازات ’’انٹر نیٹ‘‘ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔اسی طرح اس وقت عالم اسلام ’’خوارج کی دہشت گردی‘‘ کا شکار ہے۔ان کے تانے بانے بھی انہیں سے ملتےہیں۔

کیا یہ سب کچھ۔۔۔۔۔۔اسلام ہے۔کیا یہ عین توحید ہے۔۔۔۔کیا شرک و بدعت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی توحید کے سب سے بڑے علمدار،اللہ کے حبیبِ پاکﷺ کے آثار شریفہ ہیں۔۔۔ان کے ان اقدامات سے مسلمان تو یقیناً خوش ہونہیں سکتے۔کن کو خوش کرنے کےلئے یہ سب کچھ کیا گیا؟۔پھر بیت اللہ کے دروازوں کےپرانے اور قدیمی نام اپنے عیاش اور ننگِ ملت حکمرانوں کے نام پر رکھنا یہ کس آیت میں ہے۔کیا انبیاء علیہم السلام اور صحابہِ کرام ،اہل بیتِ عظام اور اس امت کے صلحاء و فاتحین اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے نام پر نام رکھے جاتے۔ کیوں کہ ان کے نام لکھیں گے تو شرگ ہوجائےگا۔مغرب کے غلاموں کے نام عین اسلام اور عین توحید ہیں۔۔۔۔۔

قارئینِ کرام: پھر اسی ہفتے میں ہی ایک دوسرا ’’سیاہ کارنامہ،شیخوں‘‘کے ہاتھوں انجام پایا۔’’ابو ظہبی‘‘ میں پہلے ’’مندر‘‘ کا افتتاح کیا گیا۔جس میں مشرکانہ و ہندووانہ رسوم ادا کی گئیں۔جے رام۔جے رام کے آوازے بلند کیے گئے۔شیخ اپنی بیویوں سمیت مندر میں مورتیوں پر چڑھاوے چڑھاتےنظر آئے۔اس کا افتتاح عالمی دہشت گردوں کا ساتھی،شیطانی اتحادِ ثلاثہ کا پارٹنر، ہزاروں مسلمانوں کاقاتل،اور کشمیر و گجرات وغیرہ کے مسلمانوں پر ہوشرباء مظالم ڈھانے والا اور ان کی عزتیں تار تار کرنے والاانسان نمادرندہ،بابری مسجد شہید کرنے والا ،اور گاؤ ماتا کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں پر غیر انسانی سلوک برپا کرنے والامتعصب ودہشت گرد ہندو’’نریندر مودی‘‘نےکیا۔مسلمانوں کی عصمت دری وقتل،اور مساجد و مقابر کی شہادت کے صلے میں تم نے اسے جزیرۂ عرب میں ’’مندر‘‘ کےلئے پلاٹ الاٹ کیا۔کیا یہ اسلام ہے۔۔۔۔

کیا اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ کایہ فرمان موجود نہیں ہے۔

حدیث مبارکہ: وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم أَوْصَى بِثَلَاثَةٍ: قَالَ:أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَسَكَتَ عَن الثَّالِثَة أَو قَالَ: فأنسيتها۔۔۔۔ترجمہ: روایت ہے حضرت ابن عباس سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین چیزوں کی وصیت کی مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو ۱۔اور وفود کو عطیہ دو جیسے انہیں عطیہ دیتا تھا۔ ابن عباس نے فرمایا کہ تیسری وصیت سے خاموشی فرمائی۔ یا کہا کہ میں بھول گیا۔(صحیح بخاری، حدیث: 3053)

اس پر میں اتنا ہی کہوں گا:

؎ چوں کفر از کعبہ برخیزد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کجا مانند مسلمانی

دینِ اسلام میں تبرک کی شرعی حیثیت

تبرک کا لغوی و اصطلاحی مفہوم

(1)برکت کے لغوی معانی: ’’اضافہ، نعمت کی زیادتی،خوش قسمتی‘‘ ہیں۔(فیروز اللغات:121)

(2) تبرک کا لغوی معنی ہے : ’’کسی سے برکت حاصل کرنا۔بزرگانِ دین کی چیزیں جو برکت کے طور پر رکھی جائیں۔بزرگوں کے آثار‘‘۔ (ابن منظور، لسان العرب، 10، 395، 396/فیروز اللغات:193)

تبرک کا شرعی مفہوم:

قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذوات، چیزوں اور مقامات کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی خیر و برکت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اشیاء سے برکت و رحمت اور سعادت چاہنا اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا تبرک کے مفہوم میں شامل ہے۔

تبرک قرآنِ مجید کی روشنی میں

آیت نمبر:1

ترجمۂ کنزالایمان: پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں راتلے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصا تکجس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھیکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔(سورۂ بنی اسرائیل:1)

اس آیت میں فرمایا گیا کہ مسجد اقصیٰ کے ارد گردہم نے برکت رکھی۔وہ کونسی برکت تھی جس کو اللہ جل شانہ بیان فرمایا ہے۔ مشہور تابعی حضرت امام مجاہد﷫ فرماتے ہیں: ’’سماه مبارکًا لأنه مقر الأنبياء ومهبط الملائکة والوحي‘‘۔’’مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کو بابرکت اس لئے کہا گیا کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی قرار گاہ اور نزولِ ملائکہ و وحی کا مقام ہے‘‘۔ (بغوي، معالم التنزيل، 3 : 92/ثناء اﷲ، تفسير المظہری، 5 :399/ابن جوزي، زاد المسير، 5 : 5)

قاضی شوکانی لکھتے ہیں: بالثّمار والأنهار والأنبياء و الصالحين فقد بارک اﷲ سبحانه حول المسجد الأقصي ببرکات الدّنيا والآخرة۔’’یعنی پھلوں، نہروں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نےمسجداقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو دنیا و آخرت کی برکتوں سے مالا مال فرمایا‘‘۔ (شوکاني، فتح القدير، 3 : 206)

آیت نمبر:2

قمیصِ یوسف علیہ السلام سے حضرت یعقوب علیہ السلام کا تبرک:

سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کا طویل واقعہ بیان ہوا ہے۔ باپ بیٹے کی جدائی میں کئی سال گزرے۔ لیکن حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کی جدائی نہ بھولے تھے اور آنسو بہا بہا کر نابینا ہوگئے۔ کئی سال بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کے توسط سے باپ کی بینائی جانے کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنا قمیص تبرک کے لئے اپنے والدِ محترم حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس بھیجا۔حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ بات سورۃ یوسف میں یوں درج ہے:

اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ وَاۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾

ترجمۂ کنزالایمان: میرا یہ کُرتا لے جاؤ اسے میرے باپ کے منھ پر ڈالو ان کی آنکھیں کُھل جائیں گی اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ۔

آیت نمبر:3

ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کُرتا یعقوب کے منھ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللّٰہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے ۔(سورۂ یوسف:93،96)

حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والدِ گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام کے درمیان قمیص کا واسطہ قائم کیا جس کی برکت سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی کھوئی ہوئی بینائی لوٹ آئی لہٰذا ان کا یہ عمل شرک نہ ہوا۔اگر یہ شرک ہوتا تواللہ جل شانہ اپنی لاریب کتاب میں اس کا کبھی ذکر نہ فرماتا۔

آیت نمبر:3

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے آثار سے تبرک:

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات کا ذکر قرآن حکیم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک خاص تاریخی پسِ منظر میں فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

ترجمۂ کنزالایمان: اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو (سورۂ بقرہ: 248)

وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسى وَآلُ هارُونَ، يَعْنِي: مُوسَى وَهَارُونَ أَنْفُسَهُمَا، كَانَ فِيهِ لَوْحَانِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَرُضَاضِ الْأَلْوَاحِ الَّتِي تَكَسَّرَتْ، وَكَانَ فِيهِ عَصَا مُوسَى وَنَعْلَاهُ، وَعِمَامَةُ هَارُونَ وَعَصَاهُ، وَقَفِيزٌ مِنَ الْمَنِّ الَّذِي كَانَ يَنْزِلُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَإِذَا حَضَرُوا الْقِتَالَ قَدَّمُوهُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَيَسْتَفْتِحُونَ بِهِ عَلَى عَدُوِّهِمْ۔

آل سے مراد خود حضرت موسیٰ و ہارون علیہا السلام کے تبرکات ہیں اس میں تورات کی دو مکمل تختیاں اور کچھ ان تختیوں کے کوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اورعصا اور (جنت کا کھانا) مَنْ جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا اس کا ٹکڑا بھی اس میں شامل تھا۔جب یہ کسی جنگ میں حصہ لیتے تو اس کو اپنے سامنے رکھ کر اللہ جل شانہ سے فتح کی دعا مانگتے ‘‘ ۔ (معالم التنزیل،1:335/تفسیر جلالین،1:54/مظہری،1:249)۔تھانوی صاحب نےبھی ’’بیان القرآن‘‘ میں یہی تحریرکیا ہے۔ مذکورہ آیت میں تبرک کے ساتھ ساتھ وسیلہ کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔

تبرک حدیث کی روشنی میں

حدیث نمبر:1

صحیح بخاری وصحیح مسلم میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: نبی ِ مکرمﷺ نے حجام کو بلا کر سرمبارک کے داہنی جانب کے بال مونڈنے کا حکم فرمایا پھر ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلاکر وہ سب بال انھیں عطا فرمادئے پھر بائیں جانب کے بالوں کوحکم فرمایا اور وہ ابوطلحہ کو دئے کہ انھیں لوگوں میں تقسیم کردو۔ (صحیح مسلم کتاب الحج باب بیان ان السنۃ یوم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۲۱)

حدیث نمبر:2

صحیح مسلم شریف میں حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: انھوں نے ایک اُونی جبہ کسروانی ساخت نکالا، اس کی پلیٹ ریشمین تھی اور دونوں چاکوں پر ریشم کا کام تھا اور کہایہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جبہ ہے ام المومنین صدیقہ کے پاس تھا ان کے انتقال کے بعد میں نے لے لیا نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے تو ہم اسے دھو دھو کر مریضوں کو پلاتے اور اس سے شفا چاہتے ہیں۔(صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم استعمال اناء الذہب والفضۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۹۰)

جس چیز کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف ہواس کی تعظیم کی جائے:

شفاء شریف میں قاضی عیاض مالکی﷫ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کا ایک جزیہ بھی ہے کہ جس چیز کو حضور سے کچھ علاقہ ہو حضور کی طرف منسوب ہو حضور نے اسے چھوا ہو یا حضور کے نام پاک سے پہچانی جاتی ہو اس سب کی تعظیم کی جائے خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ٹوپی میں چند موئے مبارک تھے کسی لڑائی میں وہ ٹوپی گر گئی خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے لئے ایسا شدید حملہ فرمایا جس پر اور صحابہ کرام نے انکار کیا اس لئے کہ اس شدید وسخت حملہ میں بہت مسلمان کام آئے خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میرا یہ حملہ ٹوپی کے لئے نہ تھا بلکہ موئے مبارک کے لئے تھا کہ مبادا اس کی برکت میرے پاس نہ رہے اور وہ کافروں کے ہاتھ لگیں اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ منبرا طہر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں جو جگہ جلوس اقدس کی تھی اسے ہاتھ سے مس کرکے وہ ہاتھ اپنے منہ پر پھیر لیاکرتے۔ (ملخصا) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن اعظامہ واکبارہ الخ عبدالتواب اکیڈمی بوہڑ گیٹ ملتان ۲/ ۴۴)

صحابہ کا عمل: اسدالغابہ وغیرہا میں ہے :جب حضرت امیر معاویہ کا آخری وقت آیا وصیت فرمائی کہ اُنہیں اُس قمیص میں کفن دیا جائے جونبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں عطافرمائی تھی ، اوریہ ان کے جسم سے متصل رکھی جائے، ان کے پاس حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ناخن پاک کے کچھ تراشے بھی تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ باریک کرکے ان کی آنکھوں اور دہن پر رکھ دئے جائیں ۔ فرمایا یہ کام انجام دینا اور مجھے ارحم الراحمین کے سپرد کردینا(ت)۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ باب المیم والعین مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ ریاض الشیخ ۴ /۳۸۷)

تیرے در دے کتیاں نال ادب

حضرت حلیمہ سعدیہ کے علاقے کے کتوں کی دعوت:

حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی﷫فرماتے ہیں: ’’ایک بزرگ گولڑوی غلام محی الدین صاحب (قبلہ بابوجی سرکار﷫) حج کے بعد جناب حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا کے گاؤ ں پہنچے۔ وہاں سات دن قیام کیا۔ ہر روز الگ الگ جماعتوں کی دعوت فرماتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک دن وہاں کے کتوں کی دعوت کی حلوہ پوری وغیرہ پکوا کر خود انہیں کھلاتے تھے روتے جاتے تھے کہ یہ جناب حلیمہ کے وطن کے کتے ہیں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح،جلد ششم،ص،173)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi