علی سے پوچھ کتنا عظیم ہے صدیق


تحریر: مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

جو تنگ ذہن ہو یہ اس کے بس کی بات نہیں
علی سے پوچھ کہ کتنا عظیم تھا صدّیق

الحمد للہ العلی الاعلی والصلاۃ والسلام علی النبی المصطفی الذی من کان نبیا وآدم بین الطین والماء وعلٰی الہٖ وصحبہ الذین عزروا حبیب المجتبٰی لاسیما علی الصدیق والمرتضی الذی لمن قال اللہ فی شانہ وسیجنبھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکی وعلی اولیاء امتہ وعلماء ملتہ لاسیما علی الامام الاعظم والغوث الاعظم وسلطان الھند والامام احمد رضا اما بعد

 
سایۂ  مصطفیٰﷺ مایۂ اصطفا   عزو نازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضل الخلق بعد الرسل   ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام
اصدق الصادقین سیّد المتقین    چشم و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام

درس گاہِ نبوّت کے پہلے طالبِ علم حضرت سیّدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی افضلیت واولیت پر ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالٰیمتفق ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لووزن ایمان ابی بکر بایمان الناس لرجح ایمان ابی بکر

یعنی اگر ابوبکر کے ایمان اور باقی تمام لوگوں کے ایمان کا وزن کیا جائے تو اکیلے ابوبکر کے ایمان کا وزن سب پر بھاری ہوگا۔(اتحاف السادۃ المتقین للزبیدی، ج ۱، ص ۳۲۳؛ ج ۷،ص ۵۷۲؛المغنی عن حمل الاسفار للعراتی، ج ۱، ص ۵۲؛ الکامل لابن عدی، ج ۴، ص ۱۵۱۸؛الدرر المنتشرۃ فی الاحادیث المشتہرۃ للسیوطی، ص ۱۳۳، بحوالۃ موسوعۃ اطراف الحدیث النبوی الشریف، ج ۶، ص ۷۸۸، طبع دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان )

اوران کے ایمان کے وزن کی زیادتی کا سبب ان کا عشقِ رسولﷺ اور تعظیم وتوقیرِ مصطفیٰﷺ ہے۔

ایک مرتبہ نماز پڑھاتے ہوئے جب صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے محسوس فرمایا کہ سرکار علیہ الصلاۃ والسلام دورانِ نماز مسجد میں تشریف لائے ہیں تو مصلیٰ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ہاتھ کے اشارے سے مصلیٰ پر ہی رہنے کا فرمایا مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ پیچھے ہٹ آئے، بعدِ نماز عالمِ ماکان ومایکون نبی ﷺ نے اس کا سبب دریافت فرمایا تو حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی :

ماکان لابن ابی قحافۃان یقدم بین یدی رسول اللہ ﷺ

ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ حضور کو پیٹھ کرکے نماز پڑھائے۔(بخاری شریف، ج ۱،ص ۲۴۲،حدیث:۶۵۲)

اور جب سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی تین پسندیدہ چیزوں کا ذکر فرمایاتو حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی تین چیزوں کو پسند فرمایا، جن میں پہلی چیز ذکر فرمائی:

النظر الی وجہک یارسول اللہ ﷺ

میری نظر ہو آپ کا چہرۂ انور ہو۔

اسی وجہ سے حدیث شریف میں آیا:

لابکثرۃ الصلاۃ ولا بکثرۃ الصیام ولٰکن بشیء وقرفی صدرہ

کہ صدّیق کو تم لوگوں پر فضیلت اس کے کثرت ِصوم وصلاۃ کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کے دل میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا جو سمندر موجیں ماررہا ہے اس وجہ سے ہے۔

حضرت سیّدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان وفضائل کا یہ مختصر مجموعہ احادیث نبوی بروایتِ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور احادیثِ مرتضوی پر مشتمل ہے:

1۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جبریل (علیہ السلام) میری خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے پوچھا میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا جبریل نے جواب دیا ابوبکر اور وہ آپ کے بعد آپ کی امّت کے والی ہیں اور آپ کے بعد سب سے افضل ہیں۔(کنزالعمال، جزء ۱۱، ص ۲۵۱، طبع دارالکتب العلمیۃ، بیروت؛ مسندالفردوس، رقم (۱۶۳۱)،ج ۱، ص ۴۰۴)

2۔ حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: سالت اللہ ان یقدمک ثلاثا فابی علی الا تقدیم ابی بکر میں نے اللہ تعالیٰ سے آپ کو مقدم کرنے کے لئے تین بار دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کو مقدم کرنے کے سوا کسی بات کو قبول نہ فرمایا۔(کنزالعمال، جزء ۱۱، ص ۲۵۵، طبع دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان؛ الصواعق المحرقۃ، ص ۳۶،۳۵، طبع مکتبۂ مجیدیہ، ملتان)

3۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

رحم اللہ ابا بکر زوجنی ابنتہ وحملنی الی دارالھجرۃ واعتق بلالامن مالہ وما نفعنی مال فی الاسلام ما نفعنی مال ابی بکر۔

اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی اور مجھے سوار کراکے دارالہجرت لے گئے اور اسلام میں ابوبکر کے مال نے جو مجھے فائدہ دیا کسی اور کے مال نے نہیں دیا۔ (الصواعق المحرقۃ، ص ۷۱، طبع مکتبۃ مجیدیۃ ملتان؛ جامع ترمذی، ج ۵، ص ۶۳۳، رقم(۳۷۱۴))

4۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ مجھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یومِ بدر حضورﷺ نے فرمایا: مع احد کما جبریل ومع الآخر میکائیل یعنی تم میں سے ایک کے ساتھ جبریل علیہ السلام اور دوسرے کے ساتھ میکائیل ہے۔(الصواعق المحرقۃ، ص ۷۶،طبع مکتبۂ مجیدیہ، ملتان)

5۔ حضرت علی، حضرت انس، حضرت جابر اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا:

سیّدا کہول اھل الجنۃ من الاوّلین والاٰخرین الاالنبیین والمرسلین لاتخبرھما یا علی یعنی ابابکر وعمر یعنی انبیا اور مرسلین کے علاوہ ابوبکر اور عمر اوّلین اور آخرین اہلِ جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔ اے علی! آپ ان کو خبر نہ دینا۔ (الصواعق المحرقۃ، ص۷۸،۷۷،طبع مکتبۂ مجیدیہ، ملتان؛ کنزالعمال، جزء ۱۱، ص ۲۵۷، طبع دارالکتب العلمیہ، بیروت)

6۔ حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خیر امتی بعدی ابوبکر وعمر میرے بعد میری امّت کے بہترین آدمی ابوبکر وعمر ہیں۔(الصواعق المحرقۃ، ص ۷۸،طبع مکتبۂ مجیدیہ، ملتان)

7۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یاابا بکر ان اللہ اعطانی ثواب من اٰمن بی منذ خلق آدم الی ان بعثنی وان اللہ تعالٰی اعطاک یا ابا بکر ثواب من اٰمن بی منذ بعثنی الٰی یوم القیامۃ اے ابوبکر ! بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر میرے مبعوث ہونے تک جو مجھ پر ایمان لایا اس کا ثواب عطا فرمایا اور ابوبکر آپ کو میرے مبعوث ہونے سے لے کر قیامت تک جو مجھ پر ایمان لائے گا اس کا ثواب عطا فرمایا۔(کنزالعمال، جزء ۱۱،ص۲۵۶،طبع دارالکتب العلمیہ، بیروت)

8۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: ماولد فی الاسلام مولود ازکی ولا اطہر ولا افضل من ابی بکر وعمر، جو بچہ بھی اسلام میں پیدا ہوا وہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے زیادہ پاک اور افضل نہیں۔ (کنزالعمال، ج ۱۱،ص ۲۶۹،طبع دارالکتب العلمیہ، بیروت)

9۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تم ابوبکر کو والی بناؤ گے تو تم انہیں دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا اور آخرت میں رغبت رکھنے والا پاؤ گے اور اگر عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو والی بناؤ گے تو انہیں ایسا قوی اور امین پاؤگے جسے اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی اور اگر تم علی کو والی بناؤ گے تو انہیں ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا پاؤ گے جو تمہیں سیدھے راستے پر چلائے گا۔(مستدرک حاکم، ج ۳، ص ۷۳، رقم (۴۴۳۴)؛ مسند احمد، ج ۱، ص ۱۰۸،رقم (۸۵۹)؛مسندبزار، ج ۳، ص ۳۳، رقم (۷۸۳)

10۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُنہیں فرمایا اے علی! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ میں ابو بکر کو وزیر، عمر کو مُشیر، عثمان کو سہارااور تجھے اپنا مدد گار بناؤں، پس اللہ تبارک وتعالٰی نے تم چاروں کے متعلق اُم الکتاب میں وعدہ لیا ہے کہ تُم سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر فاجر؛ تم میری نبوّت کے خلفا ہو، میرے ذمّے کی بیعت لینے والے ہو اور میری اُمّت پر حجت ہو، میری اُمّت کے لوگ نہ تم سے مقاطعہ کریں، نہ تم سے مُنہ پھیریں اور نہ تمہاری نافرمانی کریں۔

اِ س روایت کی تخریج ابنِ سمان نے موافق میں کی اور اِسے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دوسرے طریق پر بھی روایت کیا۔(الرّیاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، ص ۸۶)

11۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو سات نجیب ورفیق عطا فرمائے گئے یا فرمایا ’’رقبا‘‘ عطا فرمائے گئے اور مجھے چودہ (۱۴)عطا فرمائے گئے ہیں۔ہم نے کہا: وہ کون ہیں؟

حضرت علی نے فرمایا: میں اور میرے دو بیٹے (حسن اور حسین)، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان فارسی، مقداد، حُذیفہ، عمّار اور عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ تعالٰی عنہم)

اس کی تخریج ترمذی نے کی، اور امام رازی نے فوائد میں ان لفظوں کے ساتھ نقل کیا۔(الرّیاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، ص ۷۳)

12۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر رحمت کرے، اُس نے اپنی بیٹی کو میری زوجیت میں دیا، اور مُجھے دارِ ہجرت تک لے کر آیا اور غار میں میرا ساتھی بنا اور اپنے مال سے اِس نے بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آزاد کروایا۔

اللہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر رحم فرمائے وہ حق کہتا ہے اگرچہ تلخ ہو، اُس نے اپنا حق اور اپنا پیارا مال چھوڑ دیا۔

اللہ تعالیٰ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ پر رحم فرمائے، اُس سے ملائکہ حیا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر رحم فرمائے، الٰہی! جدھر وہ جائے اُس طرف حق کو پھیر دے۔

اس روایت کی تخریج ترمذی نے اور خلعی اور ابنِ سمان نے کی۔(الرّیاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، ص ۸۷)

13۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا خیر تین سو ستر خصائل پر مشتمل ہے جب اللہ تعالیٰ کسی سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے ان میں سے کوئی ایک خصلت عطا فرمادیتا ہے جس کے ساتھ اُسے جنت میں داخل فرماتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ! اس میں سے کوئی چیز مجھ میں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں آپ میں سب جمع ہیں۔

اس روایت کی تخریج صاحبِ فضائل نے کی اور ابنِ بہلول نے سلمان بن یسار سے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی روایت بیان کی۔ (الرّیاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، ص ۳۱۸)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi