اے اہلِ شام


تحریر :پروفیسر محمد اسماعیل بدایونی

وہ وڈیو نہیں تھی ۔۔۔

وہ تو کلیجے پر چلتے خنجر تھے ۔۔۔وہ تو آنسوؤں، درد اور کرب کا سمندر تھے ۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں تھا، میرا دانیال تھا۔۔۔ میری حبیبہ تھی، وہ دم توڑتے بچے مجھے اپنے ہی لگے، وہ سسکتے بچے کوئی اور نہیں تھے، رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے معصوم پھول تھے، وہ تو وہ کلیاں تھیں جو ابھی صحیح سے کھلی بھی نہیں تھیں ۔۔۔۔

میرے آنسو نہیں تھم رہے۔۔۔میرے آنسو کیوں نکل رہے ہیں ۔۔۔

میرا اُن سے رشتہ کیا ہے؟۔۔۔میں ان کے لیے تڑپ کیوں رہا ہوں؟

ان کا میرا رشتہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا ہے ۔۔۔

اپنی بے بسی کا ماتم کروں یا بر سرِ اقتدار مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر مرثیہ پڑھوں۔

افسوس! صد افسوس!جس وقت ملّت ِ اسلامیہ کا جسد زخموں سے چور چور ہے، وقت کے ابو داؤد امّت کی توجہ ناموسِ رسالت ﷺ سے اور شام کی ہولناک بربریت و سفاکیت سے ہٹانے کے لیے ’’اصلاحِ مال‘‘ المعروف ’’اپنی دکانوں کی رینوویشن ‘‘میں مصروف ہیں۔

چھوڑیے جناب! مقدس بتوں کی پرستش میں مبتلا عوام کا لانعام اور پرساد کے خواہشمند پجاریوں سے یہ شکوہ کروں بھی تو کیوں کر ؟

میری آواز میں کوئی صور ہوتا تو پوری قوم کو جگا دیتا افسوس! میرے پاس تو بس بے بسی کے آنسو ہیں ۔۔۔میں چیخ چیخ کر لوگوں کو جگانا چاہتا ہوں۔

’’تم کیوں چیخ رہے ہو؟

کیا تمہارے چیخنے سے مسئلہ حل ہو گا؟

تم کیا سمجھتے ہو؟ کیا تمہارے آنسو کسی شقی کے دل کو پگھلا دیں گے؟ نہیں نا!

سُنو! جب تمہاری گود میں تمہارا بیٹا سسکتا تڑپتا دم توڑے گا نا! تب تمہیں احسا س ہوگا۔۔۔جب تم اپنی بیوی کی سسکیوں کو اپنے سینے میں جذب نہیں کر سکو گے تب معلوم ہوگا۔۔ جب تمہارے پیاروں میں سے کوئی تمہارے اپنے ہاتھوں میں ایک کے بعد ایک دم توڑتا چلا جائے گا، تب تمہیں احساس ہوگایہ چیخ کیوں بلند ہوتی ہے۔۔۔اس چیخ میں درد اور کرب کیوں کر جگہ بناتا ہے۔۔۔ وہ ایک مرتبہ پھر سسک سسک کر رو پڑا ۔

اے اہلِ شام کی ماؤ! مجھ جیسے چند لوگ تمہاری گود میں دم توڑتے ہوئے اس بچی کے لیے صرف آنسوؤں کے نذرانے پیش کر سکتے ہیں ۔۔۔

اے اہلِشام! ہمارے پاس تمہارے درد اور غم بانٹنے کے لیے وقت بھی نہیں ہے ۔۔۔

اے اہلِ شام! تمہارا تعلق تو عیسائیوں کے مشرقی تیمور سے بھی نہیں کہ’’اقلیت کا حق‘‘ کہہ کر تم پر نوازشیں کی جاتیں۔

اے اہلِ شام! گرچہ تم اکثریت سے تعلق رکھتے ہو جمہوریت تمہارا حق ہے مگر اللہ و رسول ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہو یہ ہی تمہارا جرم ہے ۔

اے اہلِ شام! تمہارے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہو گی ۔۔۔اللہ و رسول ﷺ کا نام لینے والوں کے لیے بھی بھلا کوئی انسانی حقوق ہیں؟

افسوس! یہ دوہرا معیار اور تضاد بھی مسلمانوں کی آنکھیں نہ کھول سکا ۔

ہاں اے اہلِشام! تمہارے لیے ایک ہی حکم ہے تمہیں مار دیا جائے ۔۔۔جلا دیا جائے ۔۔۔اور ختم کر دیا جائے۔ ۔۔

اور سُنو! اے بے حس دوستو!

اب میں سب سے بھیک مانگوں گا شام کے مسلمانوں کے لیے۔۔۔ میں ہر اس جماعت کا ساتھ دوں گا جو شام کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائے گی خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو ۔۔۔ کسی بھی جماعت سے ہو ۔۔۔کسی بھی پارٹی سے ہو۔

تم تو اہلِمحبت ہو نا! تم تو عشقِ رسول ﷺ کے دعوے دار ہو ۔۔۔تم تو محبّتِ رسول ﷺ کے گن گانے والے ہو، شام کی اس ہولناک تباہی و بربادی پر اب تک تمہارے سینے میں کسی آتش فشاں نے جنم کیوں نہیں لیا ۔۔۔ابھی تک تمہارے آنسوؤں نے مدد کی شکل کیوں نہیں اختیار کی؟

سوچنا ضرور اپنی اپنی جماعت کےلیڈروں کو ۔۔۔اپنے اپنے مسلک کے رہبروں کو ۔۔۔۔اپنی اپنی تنظیموں کے قائدین کو ایک مرتبہ جھنجھوڑنا ضرور…

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi