علماء کو اسمبلیوں میں جانا


 

نوٹ: زیرِ نظر مضمون در اصل ماہ نامہ ’’ماہِ طیبہ‘‘ (کوٹلی لوہاراں) کا اداریہ ہے، جو جون 1958ء کے شمارے میں صفحہ ۵تا ۶ پر ’’آنے والے الیکشن اور اہلِ سنّت‘‘ کے عنوان سے شائع ہُوا تھا۔ اس ماہ نامے کے مدیر حضرت علامہ ابو النور محمد بشیر کوٹلوی ﷫ تھے؛ لہٰذا، غالب گمان یہی ہے کہ یہ ادارتی مضمون (اداریہ) بھی اُنھی کا تحریر کردہ ہے۔ اِس مضمون کی افادیت دورِ حاضر میں بھی بالکل اُسی طرح برقرار ہے، جس طرح آج سے ساٹھ سال پہلے تھی؛ لہٰذا، یہ مضمون حسبِ ضرورت چند سطور کے حذف کے ساتھ ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے۔

قرآنِ پاک میں حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جب جیل سے با عزت رہا ہوئے اور مصر کے بادشاہ نے آپ کو بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور ملک کے نظام و استحکام کے متعلق آپ سے مشورہ طلب کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس وقت بادشاہ سے یوں ارشاد فرمایا:

اِجْعَلْنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرْضِۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۵﴾

یعنی اپنی قلمرو کے تمام خزانے تو میرے سپرد کردے۔ میں حفاظت والا اور علم والا ہوں۔(سورۂ یوسف: ۵۵)

مفسرینِ کرام نے لکھا ہے کہ ملک میں آنے والی قحط سالی کے پیشِ نظر اور نظامِ حکومت چلانے کے لیے کسی کو اہل نہ پاکر حضرت یوسف علیہ السلام نے اس ولایت و حکومت کا مطالبہ فرمایا، جو اُن حالات میں ضروری تھا۔ اس واقعے سے مفسرینِ کرام علیہم الرحمۃ نے مخصوص حالات میں طلبِ حکومت و ولایت کا جواز مستنبط فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ جب ملک کی باک ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو اقامتِ دین اور رعایا پروری کے معاملے میں نا اہل ثابت ہوں تو محض اقامتِ دین اور رعایا پروری کی نیت سے دین و ملّت کاصحیح درد رکھنے والوں کو آگے بڑھانا چاہیے اور ملک کو دینی و دنیوی نقصان سے بچانا چاہیے۔

ہمارے خدا داد ملکِ پاکستان کی اس وقت جو حالت ہے سب کے سامنے ہے۔ پاکستان بڑا مقدس لفظ ہے اور یہ ملک ہمیں بڑا عزیز ہے۔ خدا اس کی حفاظت فرمائے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاسی اکابر نے پاکستان کو واقعی پاکستان بننے کا تاحال کوئی موقع نہیں دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں سکھ نہیں رہے، ہندو یہاں سے چلے گئے مگر یہ واقعہ ہے کہ کافر تو چلے گئے، لیکن کفر بدستور یہیں ہے۔ کنوئیں میں کُتا گرگیا اور مرگیا۔ ایک مولوی صاحب سےمسئلہ دریافت کیا گیا، تو انھوں نے فرمایا کہ سارا پانی نکال دو۔ چناں چہ سارا پانی نکال دیا گیا اور مولوی صاحب سے کہا گیا کہ جناب! کنوئیں کا سارا پانی نکال دیا گیا ہے حتّٰی کہ اب تو کنوئیں کے اندر کتا صاف نظر آنے لگا ہے۔

مولوی صاحب نے کہا: تو کیا کتا نہیں نکالا؟ وہ بولے کتا نکالنے کا آپ نے کب فرمایا تھا؟ پانی ہی کا کہا تھا۔ مولوی صاحب بولے۔ نا دانو! کتا اندر کا اندر ہی رہا، تو پھر پانی نکال دینے سے کیا فائدہ۔

کچھ اسی طرح کا قصّہ یہاں بھی ہے کہ پانی باہر اور کتا اندر۔ سکھ اور ہندو یعنی کافر باہر اور کفر اندر۔

کیا اس ملک کے اسلام دوست افراد کا یہ فرض نہیں کہ وہ اب اپنی کوششوں سے اس کتے کو بھی ملک سے باہر نکال کر دم لیں اور یاد رکھیے کہ آنے والے الیکشن میں ہمیں یہ موقع مل رہا ہے کہ ہم اپنی متفقہ کوششوں سے ایسے افراد کو اپنا نمائندہ منتخب کریں جو اس کنوئیں سے اس کتے کو بھی باہر نکال پھینکیں اور کنوئیں کو واقعی پاک کر دکھائیں۔

غلط کار اور الحاد دوست نمائندے اگر کوئی منافیِ اسلام حرکت کرتے ہیں تو یاد رکھیے کہ اس کا اخروی خمیازہ جہاں اس غلط کار نمائندے کو بھگتنا پڑے گا وہاں اپنے ووٹ سے اسے آگے بھیج کر اسے اس غلط کاری کا موقع دینے والے کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ اس لیے کہ اس نے اپنا ووٹ دے کر، اُسے اس حرکت کا موقعہ بہم پہنچایا۔

آنے والے الیکشن میں ملک کے سوادِ اعظم اہلِ سنّت وجماعت کو ابھی سے ان حقائق پر غور کرلینا چاہیے اور اپنے دین و مذہب کی حمایت کی خاطر متفقہ طور پر یہ عہد کرلینا چاہیے کہ الیکشن میں بغیر کسی طمع و لالچ کے صرف اسی کو ووٹ دیں گے جو مخلص مسلمان ہوگا اور جو اپنے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے صحیح طور پر مسلمانوں کی نمائندگی کرے گا اور جسے دین کے وقار، سرورِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ناموس، صحابۂ کرام، ائمّۂ اَطہار اور اولیائے کرام علیہم الرضوان کی عزت اور قوم کے مفاد سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر نہ ہوگی۔

سنّی مسلمانوں کو ابھی سے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ کسی ایسے امید وار کو ووٹ نہ دیں جو آگے چل کر دین و ملّت کے لیے انہیں کارناموں کا مظاہرہ کرے جن کا مظاہرہ اب ہورہا ہے اور اگر ایسا کیا گیا ہے تو ہر ووٹر خدا کے ہاں جواب دہ ہوگا۔

وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَاغ!

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi