نفاذ شریعت کا لائحہ عمل


 علامہ مفتی سیّد شجاعت علی قادری﷫

مجاہدِملّت حضرت علامہ عبد الستار خاں نیازی ﷫صاحب نے حضرت مفتی سیّد شجاعت علی قادری صاحب ﷫ سے ایک ملاقات کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا کہ مفتی صاحب پاکستان میں نفاذِ شریعت کاایک لائحہ عمل ترتیب دیں۔ اس کے جواب میں مفتی صاحب نے یہ مقالہ تحریر کیا ۔ مفتی صاحب نے حضرت کو ایک خط تحریر فرمایاجس میں اس خواہش کی تعمیل کی گئی ۔ خط درجِ ذیل ہے:

محترم مجاہدِ ملّت حضرت علامہ عبدالستار خاں نیازی صاحب زِیْدَ مَجْدُکُمْ!

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ!

مزاجِ گرامی:

مورخہ ۵؍اگست کو جناب نے مجھے وزارتِ امورِ مذہبی کے دفتر میں ملاقات کے لئے مدعو فرمایا اور اس موقع پرفرمایاکہ میں ’’نفاذِ شریعت‘‘ کا ایک لائحہ عمل تجویز کروں۔ آپ سے میں نے عرض کیا تھاکہ آپ نے ملک کے نامور جیّد علما پر مشتمل نفاذِشریعت کمیٹی قائم فرمائی ہے، وہ یقیناً میری انفرادی کوشش سے زائد اچھی تجاویز پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر جناب نے اصرار فرمایااور یہ وجہ بتائی کہ مجھے فیڈرل شریعت کورٹ میں بحیثیتِ جج خدمات انجام دینے کا تجربہ ہے، نیز اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی نفاذِ اسلام کے لیے خدمات انجام دے رہاہوں، مزید یہ کہ حکومت کےمقرر کردہ کمیشن اسلاما ئزیشن آف ایجوکیشن کا بھی ممبرہوں اور اس میدان میں کچھ تجربات رکھتاہوں۔ یہ جنابِ والا کاحُسنِ ظن ہے امرِ واقعہ یہ ہے کہ ناچیز شب وروز حسبِ استطاعت پاکستان میں شریعتِ اسلامیہ کے کلّی نفاذ کے لئے مصروف ہے پھر دارالعلوم نعیمیہ میں خدمتِ حدیث جیسا اہم کام بھی فقیر کے سپرد ہے۔ ان تمام مصروفیات کے باوجود جناب نے جس کام کا حکم دیاہےوہ میرا مقصدِ زیست اورسرمایۂ حیات ہے؛ لہٰذا، حکم کی تعمیل کے سواچارۂ کار نہیں۔

(۱) ظاہر ہے کہ آپ کامقصود یہ نہیں کہ میں جناب کی خدمت میں پورے اسلام کا نظامِ حیات پیش کروں اس لئے کہ اسلامی نظام میں کوئی امر مخفی نہیں رہاہے پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی نظام کی تمام جزئیات پر مفصّل رپورٹیں تیار کردی ہیں اور یہ رپوٹیں مطبوعہ موجود ہیں ان کو ہماری قانون ساز اسمبلی ایک نظر دیکھنےکوبھی تیار نہیں۔ کیااچھا ہوکہ جنابِ والا ان رپورٹوں کو اسمبلی میں پیش کرادیں تاکہ ان پر بحث ہوجائے۔ میں نے ان رپورٹوں کا جائزہ لیا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ نفاذِشریعت کے لئے پورا مواد فراہم کرتی ہیں۔

(۲) اسلام کا نفاذ اصولی طور پر آئین ہی کے ذریعے ہی ہوسکتاہے اس کے لئے کئی مرتبہ کوششیں ہوئیں مگر ہم نے دیکھ لیا کہ اسلام مخالف قوتوں نے آئین میں کوئی ایسی واضح بات نہ آنے دی جائے جس سے اسلام کو اس ملک میں بالادستی حاصل ہوجائے یہاں تک کہ قراردادِ مقاصد جزوِ آئین بنا دینےکے باوجود ایسی راہیں تلاش کرلی گئیں کہ اسلام کو برتری حاصل نہ رہے، فَلْیَاسَفَا (ہائےافسوس)۔ اب آئین تضادات کا مجموعہ ہے۔ یہ ازحد ضروری ہے آئین میں ایک ایسی ترمیم لائی جائے جو قرآن وسنّت کو اِس مُلک کا سب سے بالا تر قانون قرار دے اور یہ صراحت کی جائے کہ آئین کی جو دفعہ بھی قرآن وسنّت سے متصادم ہوگی وہ کالعدم ہوجائے گی۔

(۳) میرااپنا خیال ہے کہ موجودہ جمہوریت اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جو لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں، جس طرح آتے ہیں ان کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتے۔ اگریہ مکمّل طور پر ختم نہ ہوسکے تو سرِدست ’’متناسب نمائندگی‘‘ کا طریقہ اپنایاجائے۔

(۴) اب تک جتنابھی اسلام نافذ کیا گیاہے میرا خیال ہے ’’الٹا‘‘ نافذکیاگیاہےیعنی حکام پرنافذنہیں کیاگیاعوام پر نافذ کیاگیا ہے۔ قوانینِ حدود کا تعلق عملاًغریب عوام سے ہے۔ میں نے کافی عرصہ عدالت میں گذاراہے، زناکے الزام میں فقیر، ہاری، مزدور کسان پکڑے جاتے ہیں؛ شراب نوشی میں بھی یہ ملزم ٹھہرتےہیں۔ ہیروئن کی اسمگلنگ میں آٹھ دس گرام والے پکڑے جاتے ہیں، بڑےبڑے اسمگلرز جن کے نام بین الاقوامی اداروں کی طرف سے شائع ہوتے رہے ہیں وہ اتنی بلندیوں پر فائزہوتےہیں جن تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جو بھی اقدامات کیے جائیں ان کی ابتداءدرجِ ذیل طبقات سے ہو۔ یعنی یہ یقینی بنایاجائے کہ یہ طبقات اسلامی نظام کی گرفت میں پوری طرح آجائیں گے۔

(۱) صدرِ مملکت (۲) وزیرِاعظم (۳) سینٹ کےممبران (۴) قومی اسمبلی کے ممبران (۵) صوبائی اسمبلی کے ممبران (۶) تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے سربراہ (۷) فوج کے تمام محکمے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ان طبقات پر شریعتِ اسلامیہ نافذہوگی تو عوام خود شریعت کی پیروی کریں گے۔آپ کے علم میں ہےکہ حضرت سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چھنے آٹے کی روٹی، گھوڑے کی سواری، اور باریک کپڑے کی ممانعت عوام کو نہیں کی تھی، آپ نے اس کی ممانعت حکام کو کی تھی۔ اسی طرح ان کی گرفت اپنے عمّالِ حکومت کے طرزِ زندگی پر تھی اوریہی وجہ ہے کہ آپ کامیاب خلیفہ رہے۔ میں ایک مثال سے یہ بات سمجھاتا ہوں: ہمارے نظامِ تعلیم کے کمیشن میں یہ بحث چل رہی ہے کہ انگلش میڈیم اسکول یامشزی اسکول بند ہونے چاہییں یا باقی رہیں۔ ہماری رائےیہ ہےکہ انہیں ختم کیا جائے اور قوم کو فکری اتحاد دینے کے لئےقومی زبان اردو کو ذریعۂ تعلیم بنایاجائے اورانگریزی کو بحیثیت ایک مضمون کے پڑھایاجائے، لیکن جب تک ایسا نہ ہو مذکورہ طبقات پرپابندی لگائی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف سرکاری اسکولوںمیں تعلیم دلائیں۔ آپ دیکھیں گےکہ یہ لوگ صرف اس ایک اقدام پر بھی راضی نہیں ہوں گے۔

(۵) ملاوٹ ہمارے ملک کے لئے ایک عذاب ہے۔ سرِ دست مذکورہ طبقات کے ملوں، فیکٹریوں وغیرہ کی مصنوعات کی جانچ پڑتال کی جائے اور اگر ان لوگوں کے کارخانوںمیں ملاوٹ پائی جائے تو انہیں اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔

(۶) شراب نوشی پر پابندی میں بھی ان طبقات کوگرفت میں لیا جائے۔ کیا یہ شرم ناک نہیں کہ ایک وزیرِاعلیٰ بھرے ایوان میں شراب پینے کا اقرار کرتاہے اور حدود وقوانین کے نفاذکے باوجود اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے، لیکن غریب آدمی جو ہوٹل پر بیٹھاہوتاہے پولیس والے اس کا منہ سونگھتے ہیں۔

(۷) مذکورہ طبقات پر یہ ذمّے داری عائد کی جائے کہ وہ اپنے دفاتر میں امامت کے فرائض انجام دیں۔ اگر قرآن صحیح نہ پڑھ سکیں تو ریفریشرکورسز کرائے جائیں۔ یہ پابندی ان کے فرائضِ منصبی کاقانونی حصّہ قراردی جائے۔

(۸) ہم دیکھتے ہیں یہاں جو شرعی چیز نافذکی جاتی ہےوہ نہایت نیم دلی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ جناب کی توجّہ کے لئےدو مثالیں پیش کرتاہوں:

الف: فیڈرل شریعت کورٹ جو فقہِ اسلامی اور شریعتِ اسلامی کی بالادستی کےلئےقائم کی گئی ہے اس میں صرف ۳ تین علما کی گنجائش ہے جب کہ انگریزی قانون کے ۴ جج ہیں۔ اس کاچیف جسٹس لازمی طور پر انگریزی قانون کاماہر ہوگا۔ آخر کیوں؟ سرِ دست اس کورٹ میں صرف ایک عالم ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پورے ملک میں کوئی عالم دستیاب نہیں۔ ب: اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بھی غیر عالم ہوتاہے۔ کیوں؟

یہ اس امر کی غمازی کرتاہے کہ پورے ملک میں کہیں بھی اسلام کو بالادستی حاصل ہونے نہیں دی جائے گی۔

(۹) جو ادارے اسلام کے نام پر قائم ہیں ان پردشمنانِ اسلام قابض ہیں۔ یہ سب علماکے حوالے کیے جائیں۔

(۱۰) فارن سروس میں علماکو رکھاجائے، آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے سُفرا میں ایک بھی عالمِ دین نہیں۔ اسلام دشمن سفیروں نےہمارےاسلامی تشخص کوکبھی ابھرنےنہیں دیا۔

(۱۱) ہم نے اسلامائیزیشن آف ایجوکیشن کے کمیشن کو نظامِ تعلیم کی اصلاح کاپوراپروگرام دیاہے، تاہم آپ سے گزارش ہے کہ تمام لاءکالجوں سےسیکولر قانون کی تعلیم فوری ختم کرائیں اور یہاں مکمل اسلامی قانون پڑھایا جائے۔ ایک پرچہ تقابلی مطالعہ اور بصیرت پیدا کرنے کےلئے دوسرے قوانین کا رکھ لیں۔ اس ملک کی تباہی میں قانون کے پیشے سے تعلق رکھنے والے پیش پیش ہیں اور یہی لوگ اسلامی نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

(۱۲) حجاب کا قانون فوری طور پر نافذکیاجائے۔

(۱۳) جو اسلامی قوانین نافذکیے جائیں ان پر اخبارات وغیرہ میں بحث ممنوع قرار دی جائے۔

(۱۴) عدالتوں سے فوری طور پر انگریزی ختم کی جائے۔ نیچے سے اوپر تک تمام عدالتوں کے ججوں کو پابند کیاجائےکہ وہ اردو میں فیصلےکریں۔ وکلا اردو میں بحث کریں۔ عدالتوں میں انگریزی کے چلن کا کیا جواز ہے؟ کیا مدّعی انگریز ہے یا مدّعاعلیہ انگریز ہے؟

(۱۵) عدالتوں میں فوری طور پر دیوانی، فوج داری اور پروسیجر (procedure) کے قوانین کو مکمّل اسلامی بنایا جائے۔ یہ اسلامائزیشن محض دھوکاہے اور یہ اسلام کو ثانوی حیثیت دینے کے مترادف ہے۔ اس میں سیکولر قوانین کو اساس اور بنیاد قرار دیا گیاہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا حوالہ انگریز کے قوانین اور انگریز کے فیصلوں سے قطعاً کٹ جائے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے قانون دانوں کی الماریاں جن کتابوں سے بھری پڑی ہیں اُن میں کیا لکھا ہوا ہے، یہی ہندوؤں اور انگریز وں کے فیصلے ہیں جومسلمانوں پرتھوپے جاتے ہیں۔ کافرججوں کی نظائر ہمارے قانون کا کل سرمایہ اور ہمارے وکیل کا کُل علم ہے اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے فیصلے، ابو حنیفہ اورقاضی ابو یوسف کے فیصلے اُن کے نزدیک لایعنی ہیں۔ یہ غلط ہے کہ ہمارے پاس عدالتوںمیں مقررکرنے کے لئے علما جج نہیں ہیں۔ علماکے لئے انگریزی کی شرط جو بلاوجہ لگا رکھی ہے اُس کے باعث یہ صورتِ حال پیدا ہو ئی ہے۔ اگر یہ شرط ہٹا دی جائے تو ہمارے مدارس کے لاکھوں علماموجود ہیں جنھیں عدالتوں میں ریفریشر کورسز کرکے لگایا جاسکتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر ججوں کا منبعِ علم کیا ہے ۔ ایل ایل بی میں کیا پڑھایاجاتاہے؟ پھر نقل سے امتحان پاس کرنے والوں سے آپ کیا توقّع رکھ سکتے ہیں؟

قلّتِ وقت کے باعث یہی ہوسکتا تھا۔ قبول فرمائیں۔

اگر نفاذِشریعت کمیٹی کی میٹنگ ہو تو مجھے مطلع فرمائیں۔ اگر موقع ملا تو حاضر ہوکر کچھ زبانی عرض کروں گا۔

(مقالاتِ ابنِ مسعود مفتی سیّد شجاعت علی قادری، ص225تا230)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi