مذہبی محافل میں نسوانی گلوکاری


از: محمد افتخار الحسن رضوی (سعودی عرب) عورت کی آواز جب عورت نہ رہے تو فتنے جنم لیتے ہیں۔ فقہائے اسلام نے اس لئے عورت کے لیے یہ حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ اگر تلاوت، نعت خوانی اور وعظ و نصیحت بھی کرنا چاہے تو چادر اور چہار دیواری کا تقدس پامال نہ ہونے دے، اس کی آواز باہر نہ جائے، کیوں کہ اس کا ترنّم، سوز اور آواز میں حلاوت و ملاحت شیطان کی شمولیت سے غیر محرم تک پہنچے گی، نتیجے میں وہی ہوگا جو نہیں ہونا چاہیے۔ عزتیں خطرے میں پڑیں گی، اوباش لوگ پیچھے پڑیں گے، فحاشی کی طرف رغبت دلائیں گے اور حرام کاری کی دلدل میں پھنسا دیں گے۔ اس سلسلے میں شیطانی قوتیں بھی سرگرمِ عمل ہوجائیں گی۔

ہماری وہ مسلمان بہنیں جو کسی بھی وجہ سے شریعتِ اسلامیہ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں ان سے پوچھ لیجیے کہ انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے اسی آزادانہ بھرم کو قائم رکھنے کے لیے وہ جھوٹ کا سہارا لے کر یہ کہہ دیتی ہوں گی کہ میں تو شادی شدہ بچوں والی ہوں، مجھے کبھی کسی غیر مرد نے غلط نظر سے نہیں دیکھا یا مجھے مخصوص الفاظ کے ساتھ مخاطب نہیں کیا لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہوتا اور بے شک وہ رب عزوجل ہماری خلوت و جلوت کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔


اوپری سطور میں جو خدشات مذکور ہوئے وہ جنم کیوں لیتےہیں؟ ہمارے معاشرے میں نعت خوانی کا کلچر عام ہے جو کہ ثواب کا کام ہے اور ایک مقدس و پاکیزہ عمل ہے، لیکن اہلِ سنّت کے مشائخ و علما نے اس کی بھی کچھ حدیں اور احکام بیان کیے ہیں۔ ہماری جوان بچیاں نعت پڑھتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ میڈیا پر آتی ہیں۔ پہلے نقاب یا حجاب ہوتا ہے پھر یہ نقاب و حجاب ہٹنا شروع ہوتے ہیں کیوں کہ میڈیا مالکان کو چینل کی پرموشن میں بے نقاب چہرے درکار ہوتے ہیں۔ یہ بیٹیاں اور بہنیں شروع میں فلاں فلاں بہن ہوتی ہیں، مثلاً ہندہ بہن۔ جوں ہی شریعت سے آزادی پاتی ہیں تو پھر ہندہ بہن سے ہندہ جی ہوجاتی ہیں۔ پھر نعت کے ساتھ ساتھ ’’عارفانہ کلام‘‘ (درحقیقت جاہلانہ کلام اِلَّا مَاشَآءَ اللہ) شروع کرتی ہیں۔ پھر میر و غالب کی غزل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

مسجد و مدرسہ اور محافلِ نعت کے اسٹیج سے شروع ہونے والا یہ سفر کسی ’’کلچر شو‘‘ اور پھر رقاصاؤں کے جھرمٹ تک لے جاتا ہے۔ دور کاہے کو جاؤں ایک اپنے ہی ادارے کی ننھی نعت خواں بچی بطورِ گلوکارہ پاکستان کی ’’عزت فخر‘‘ اور پہچان بنی ہوئی ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ یہ سب گلوکارائیں اپنے انٹرویو میں بلاجھجک یہ کہتی ہیں کہ میں نعت خوانی کرتی تھی پھر آہستہ آہستہ اللہ کے فضل سے گلوکارہ بن گئی۔ (معاذ اللہ!)

حال ہی میں برطانیہ کے اندر ایک بہن مذہبی چینل با حجاب پروگرام کرتے کرتے اپنی عزت، اپنا دوپٹا سر سے اُتار کر شہرت کی بھوک مٹانے دوسرے میدان میں کود گئی۔ ایک معروف پاکستانی نعت خواں (جو شریعت دشمنی میں معروف ہے) نے اپنی ایک جواں سالہ بہن کو اپنی نگرانی میں گلوکاری کے میدان میں اتارا۔ یہ بہن بھی پہلے نعت خوانی کرتی تھی، اب غالب و میر کی ’’خوانی‘‘ کرتی ہیں۔ دہلی و ممبئی یا ترا بھی کرتی ہیں۔

نعت خوانی سے گلوکاری کی طرف سفر کرتی ہوئی ان مسلمان بیٹیوں کو جگہ جگہ مغربی و بھارتی ’’فلمی تصوف‘‘ کا سہارا لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ نام نہاد تصوف ان کا حجاب و نقاب تو اتارتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مردوزن کا فرق بھی ختم کروادیتا ہے۔ دینی پہچان سے باہر نکل کر قوالی، گلوکاری، اینکر اور پھر ہوسٹ بننے تک کے سفر میں ان خواتین کی اکثریت اصلی حلال و پاک زندگی کی رونقوں سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہ دنیا کی نظر میں تو معزز و مشہور ہوجاتی ہیں لیکن اپنے شوہر و خاندان سے محروم ہوجاتی ہیں۔ آپ ایمان داری سے اپنے آس پاس دیکھیں، سوشل میڈیا پر ایسی کئی خواتین ملیں گی جو روزانہ اپنے پروگرامز، ٹاک شوز اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی تصاویر اور ویڈیوز کو شئیر کریں گی، لیکن وہ کبھی بھی اپنے شوہر کی تصویر پوسٹ نہیں کریں گی۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ یا تو وہ شوہرسے دور ہوچکی ہیں یا پھر وہ شوہر کے ساتھ تصویر دکھا کر اپنے ’’عقیدتمندوں‘‘ کو مایوس نہیں کرنا چاہتیں۔ ایسی تمام خواتین اسلام کی بیٹیاں ہیں، واپس دین کی طرف لائے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہاں اسی دنیا میں سیّدہ فاطمہ زہرا﷝کی چادر عفت تھامے بھی کچھ بیٹیاں ملتی ہیں جو دینی حدود و قیود کے ساتھ اپنے خانگی فرائض کو بھی بحسن و خوبی انجام دیتی ہیں اور دین و مسلک کی خدمت بھی کرتی ہیں۔

کراچی کے بعض حلقے نعت خوانی سے گلوکاری تک کے گناہ میں قیادت کرتے ہیں۔ بعض مذہبی چینلز والوں نے اس دھندے کو خوب فروغ دیا۔ غیر شرعی ذکر و دف کا ایسا مکروہ چسکا پڑ اکہ اب وہ ٹیموں کی شکل میں گانے لگی ہیں۔ اس ساری کہانی کا مقصد بیان یہ ہے کہ بیٹیوں کو پردہ داری سکھائی جائے۔ایک خاتون گھر کی ملکہ ہوتی ہے۔ گھر کی رونق ہوتی ہے۔ اسے سڑکوں، بازاروں، گلیوں اور چینلوں کی رونق بنانا کسی طور بھی قابل تحسین نہیں۔ وعظ و نصیحت کرنا مقصود ہو تو اس کی بھی کچھ حدیث اور اس کے کچھ قوانین و ضوابط ہیں۔ اگر شریعتِ مطہرہ کی حدوں سے تجاوز کریں گی تو شاید دنیا میں تو نام بن جائے لیکن زندگی بے سکون، بے سود، رحمتِ خداوندی سے محروم اور بد ذائقہ ہوجائے گی۔

اگر میری باتیں بری لگیں تو آخر میں ایک سوال کا جواب ضرور دیتے جائیں کہ اگر یوں ہی چہرے اور سر ننگے رکھ کر ’’میڈیا پرسن‘‘ بننا جائز و درست ہے تو مرنے کے بعد کفن میں مونھ کیوں ڈھانپ لیا جاتا ہے؟ پھرآپ اپنی وصیت میں لکھ دیں کہ جب مروں تو بھی میرے بال کھلے، بکھرے چھوڑدیے جائیں اور میرا چہرہ بھی کھلا اور ننگا رکھا جائے تاکہ ہر کوئی دیکھ سکے۔

( بَہ شکریہ ماہ نامہ اعلیٰ حضرت، بریلی شریف، جون 2018ء، ص52 تا 53)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi