اچھے اخلاق سے دلوں کی تسخیر


ڈاکٹر غلام زرقانی کٹر مسلمان کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسروں کے لیے خطرناک ہے۔ کچھ لوگ علم کی بنیاد پر اچھے کہلاتے ہیں، کچھ دولت وثروت کی بنیاد پر اچھے کہے جاتےہیں، کچھ کثرتِ عبادت و ریاضت کے پہلو سے اچھے جانے جاتے ہیں، کچھ دوسرے قابلِ قدر ملازمت حاصل کرکے اچھے سمجھے جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو سیاسی منصب پرفائز ہوکر معاشرے میں اچھی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے متذکرہ بالامفروضات میں سے کسی ایک سے بھی اختلاف نہیں ہے۔ بلاشبہ علم والے بھی اچھے ہیں، دولت والے بھی اچھے ہیں، عابد وزاہد بھی اچھے ہیں۔ بہترین ملازم بھی اچھے ہیں اور میدانِ سیاست کے شہسواربھی، تاہم سوال یہ ہے کہ سارے اچھوں میں سب سے اچھا کون ہے؟

جواب کے لیے آئیے بارگاہِ مصطفیٰ ﷺمیں حاضر ہوتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ تم یہ جاننا چاہتے ہوتمہارے درمیان سب سے اچھا کون ہے؟

تو سنو کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے،جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں (بخاری )۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں سب سے اچھے بن جائیں، تو اپنے اخلاق زیادہ سے زیادہ بہتر کرلیں۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ تم میں قیامت کے دن سب سے قریب وہ ہوگا، جو تم میں سب سے زیادہ اخلاق مند ہے (طبرانی )۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ تم میں میرےنزدیک سب سےزیادہ پسندیدہ وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ بااخلاق ہے (کامل)۔

اور ایک دوسرے پہلوسے اخلاق وکردار کی برتری یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ بلاشبہ ہردن روزہ رکھنابڑا مشکل کام ہے اور ہر رات عبادت و ریاضت میں گزاردینابھی نہایت ہی گراں ہے، تا ہم ذرا دیکھیے تو سہی کہ مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺکیافرمارہے ہیں؟ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے اخلاق وکردار کی بنیاد پر ایسے انسان کے درجے تک پہنچ جاتاہے ، جو ہر دن روزہ رکھے اور ساری ساری رات عبادت وریاضت میں گزار دے (ابوداؤد )۔ کوئی شک نہیں کہ عمدہ اخلاق وکردار کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیابات کہی جاسکتی ہے؟

رسولِ اکرم ﷺنے نہ صرف اپنی زبان مبارک سے اچھے اخلاق وکردار کی اہمیت اجاگر فرمائی، بلکہ خود عمل کرکے بھی دکھایا۔ لگے ہاتھوں صرف ایک مثال سامنے رکھیے۔ سرکارِ دو عالمﷺمدینۂ منورہ ہجرت فرماچکےتھے۔ کچھ دنوں بعد آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک جانور پر سوار ہوکر مدینے کےلیے نکل پڑیں۔ ہباربن اسود نے نشانہ لگاکر نیزے سے وار کردیا۔ آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہا گر پڑیں۔ چوں کہ آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہا امید سے تھیں، اس لیے حمل ضائع ہو گیا اور اسی حالتِ تکلیف میں روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ تاریخ اسلامی کے صفحات گواہ ہیں کہ جب حضرت ہبار بن اسود دولتِ ایمان سے مشرف ہوگئے اور معافی کے خواست گار ہوئے، تو آپ ﷺ نے انہیں معاف کردیا۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر غور کیجیے کہ لختِ جگر نہایت ہی بے دردی کے ساتھ شہید کردی جاتی ہیں، تاہم جب قتل کرنے والے حلقۂ اسلام میں داخل ہوکر معافی کی درخواست کرتے ہیں، تو رحمتِ کونین ﷺ نہ صرف انہیں معاف کردیتےہیں، بلکہ ایمان کی حالت میں زیارتِ مصطفیٰ ﷺ کی وجہ سے صحابیت کی فضلیت عظمیٰ سے مشرف بھی کردیے جاتے ہیں۔

اپنے مرکزِ عقیدت ﷺ کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے صحابۂ کرام، تابعین، تبعِ تابعین اور صلحائے امّت نے اخلاق وکردار کی بہترین تصویریں پیش کی ہیں ۔تاہم ایسا نہیں ہےکہ آج ہمارے یہاں سے یہ کردار پوری طرح محوہوگیاہو، بلکہ کہنے دیا جائے کہ آج بھی ہماری صفوں میں ایسےبااخلاق انسان موجود ہیں، جنہوں نے غیروں کو اپنے افکار وخیالات بدلنے پر مجبور کردیاہے۔ لگے ہاتھوں ایک واقعہ سن ہی لیجیے:

مجھے میرے بہنوئی جناب حسیب احمد سنجر نے بتایاکہ کچھ دنوں پہلے وہ بذریعہ ٹرین پٹنہ سے جمشید پور آرہے تھے ۔ جس کیبن میں وہ بیٹھے تھے، ان میں کئی غیر مسلم بھی تھے ۔ جب رات میں سونے کا وقت ہوا ، تو انہوں نے دیکھاکہ ایک ضعیف العمرشخص اپنے بیڈ پر چادر بچھانے اور کمبل کنارے رکھنے میں مشکلات سے دو چار ہے۔ آپ تیزی سے اٹھے اور اس کے بیڈ پر چادر بچھادی اور تکیہ رکھ کر اس کی لیٹنے میں مدد کی۔ قریب ہی، کوآپریٹیو کالج، جمشید پور کے ایک پروفیسر بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ یہ دیکھو، یہ بھی ایک مسلمان ہے، جو چہرے پر داڑھی سجائے ہوئےہے۔ یہ چہرے مہرے سے کٹر مسلمان دکھائی دے رہاہے، تاہم ایک غیر مسلم کی مدد کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھاہے، جب کہ اس کا بیٹا سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ہے اور اسے اپنے بوڑھے باپ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس کے بعد پروفیسر صاحب متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ میاں بھائی، مجھے اپنی تصویر دیجیے اور نام بتائیے تاکہ میں اس واقعے کو اخبارات میں لکھ سکوں اور پورے ملک کو بتا سکوں کہ کٹر مسلمان ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے لیے نقصاندہ ہے یا ملک کے لیے خطر ناک ہے۔

صاحبو! کوئی شک وشبہ نہیں کہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے بعض شرپسند عناصر مسلمانوں پر ظلم کررہےہیں، جو نہایت ہی تشویش ناک ہے؛ تاہم عرض یہ ہے کہ اس کے سدِّ باب کے لیے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم سڑکوں پر صدائے احتجاجات بلند کریں۔ دوسرا یہ کہ ذمّے دارانِ حکومت کے دفتروں میں جائیں اور ظلم کے خا تمے کے لئے مداخلت کی درخواست کریں۔ تیسرا یہ کہ عدالت کے دروازے پر کھڑے ہوجائیں اور فاضل جج سے انصاف کی اپیل کریں۔ چوتھا یہ کہ ذرائع ابلاغ کے دوش پر اپنی بے چینیوں سے ہم وطنوں کو باخبر کریں، مجھے اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کہ متذکرہ بالا سارے طریقے درست نہیں ہیں اور سب کے سب آہنی پنچوں سے ہمیں محفوظ رکھنے میں ممد ومعاون نہیں ہوسکتے ہیں، تاہم مدّعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ تمام طریقوں میں سب سے بہتر طریقہ یہ کے ہم اپنے پاکیزہ اخلاق و کردار سے ہم وطنوں کی سوچ بدل دیں اور وہ ہمارے حوالے سے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ مسلمان نہ ملک کے لیے نقصاندہ ہے اور نہ ہی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لیے۔ یقین جانیے کہ یہ طریقہ اس قدر تیر بہدف ہے جس میں کسی بھی شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔

اور یہ بھی سنیے کہ یہی وہ طریقہ ہے، جو نہ صرف اسے بدل کر رکھ دے گا، جس کے ساتھ اخلاق وکردار کا مظاہرہ کیا جارہاہے، بلکہ اس کے رشتے دار ، احباب اور سارے کے سارے مسلمانوں کے حوالے سے اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے، جو متذکرہ شخص کے قریب ہوں اور پھر اغلب حالات میں بات صرف یہیں تک نہیں رکے گی، بلکہ اخلاق وکردار سے متاثر ہونے والے یہ سارے افراد اپنے اپنے رشتے داروں، احباب اور متعلقین کو بھی درست سمت میں سوچنے پر مجبور کردیں گے۔ گویا یوں کہیے کہ اخلاق وکردار وہ عمل ہے، جو اجر و ثواب کے پس منظر میں نہیں، بلکہ اثر و نفوذ کے زاویے سے ’’تاثیرِ جاریہ‘‘ سے موسوم کیاجائے، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi