سخن ضیائے طیبہ


سخن ضیائے طیبہ ابتدائی تعارفی اداریہ نکل گھر سے کمر کو باندھ اور یلغار کرنا سیکھ کہ اب ہر ظلم کی بنیاد کو مسمار کرنا سیکھ یہاں پر اب تیرا خاموش رہنا جان لے گا زبان کو کھول اور دشمن سے تو تکرار کرنا سیکھ کبھی نہ بھولنا تو ’’تین سو تیرہ‘‘ کا وارث ہے اٹھا اک شاخ نازک اور اسے تلوار کرنا سیکھ صحافت ’’میڈیا‘‘ اسلاف اہلسنت کی اہم ترجیح رہی ہے ۔جی ہاں ! ماضی تو ہمیں یہ ہی یاد دلاتا ہے کہ جہاں تدریس و تعلیم ، وعظ و تقریر ، تصنیف و تالیف ، مناظرات و مراسلات وغیرہم جیسے امور کی انجام دہی کے ساتھ صحافت کو بھی اختیار کئے رکھا۔ ’’آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتا فوقتا ہر قسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بہ قیمت و بلا قیمت روزانہ یاکم ازکم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں ‘‘ ایک صدی قبل مذکورہ بالا تجویز کو اہلِ سنّت کے امام " شاہ احمد رضاخان بریلوی " معروف بہ ’’اعلیٰ حضرت‘‘ مجدد دین وملت نے اپنے ’’فتاوی رضویہ‘‘ میں پیش کیا، اس دور میں کہ جب صحافت ’’میڈیا‘‘کی اہمیت اجاگر نہیں تھی۔ ’’ایک عرصے سے چیخ رہاہوں کہ زندہ رہنا ہے تو سوچنے اور برتنے کا انداز بدلنا ہوگا ۔فولاد کی تلوار کازمانہ ختم ہوگیا اب قلم کی تلوار سے معرکے سر کیے جارہے ہیں ۔ پہلے کسی محدود رقبہ میں کفر و ضلالت کی اشاعت کے لئے سالہاسال کی مدت درکار ہوتی تھی اور اب پریس کی بدولت صرف چند گھنٹوں میں شقاوتوں کاایک عالم گیر سیلاب امنڈ سکتاہے ۔ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھئے ! آج ہندوستان کا ہر فرقہ قلم کی تونائی اور پریس کے وسائل سے کتنا مسلح ہوچکا ہے ، اتنا مسلح کہ اس یلغار سے ہمارے دین کی سلامتی خطرے سے دوچار ہوتی جارہی ہے‘‘۔ مذکورہ بالا اقتباس رئیس القلم علامہ ارشدالقادری کی تحریر سے چنا گیا جو یقینا بلاتبصرہ ہے کیوں کے اس تحریر کا حق تبصرے سے نہیں عمل سے اداکیاجانا چاہیئے ۔ ؎ موسم اچھاپانی وافر مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان امام اہلسنت کی تجویز پر عمل اپنے ہی گھر سے کیا گیا اور ماہنامہ’’الرضا‘‘ کا اجرا ہوا اور اسی کے دو ماہ بعد ماہنامہ ’’السوادالاعظم‘‘ مرادآباد سے جاری ہوا۔ یہ دونوں شمارے پورے سوسال قبل ۱۳۳۸ ھ میں شائع ہوئے ۔جبکہ اس سے قبل اسلاف اہلسنت کے صحافت میں ہفت روزہ و ماہناموں میں ’’دبدبہ سکندری‘‘ ، ’’الفقیہ‘‘،’’اہل فقیہ ،‘‘الاسلام ، ’’تحفہ حنفیہ‘‘ وغیرہ موجود تھے ۔ یاد رہے ہفت روزہ ’’دبدبہ سکندری‘‘ ۱۲۸۳ھ میں جاری ہوااور ۱۳۶۴ھ تک اس کے شمارے پائے جاتےہیں ۔ امام اہلسنت نے اپنی تجویز سے کئی سال قبل اسی کے ایک شمارے میں بھی صحافت کی اہمیت کو اجاگر کیااور تعاون کی اپیل کی تھی ۔ چناں چہ حضرت مولانا محمد فضل حسن خاں صابری عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ (نائب مدیر ’’دبدبۂ سکندری‘‘ رام پور) کے نام اپنے ایک مکتوبِ گرامی میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: ’’عوام میں اشاعت و خیالات کا سہل تر ذریعہ اخبارات ہیں ۔ بہ استثنا بعض وہ خود آزادی کے دلدادہ ہیں ، بد مذہبی بلکہ لا مذہبی کے خیالات آئے دن شائع ہوں؛ وہ نہ جھگڑا ہے نہ نفسیات، مگر حق کی تائید اور اس کے لیے اپنا کوئی صفحہ دینا جھگڑے میں پڑنا اور نفسیات پر اڑنا؛ الا ماشاء اللہ وقلیل ماھم ’’تحفۂ حنفیہ‘‘ (عظیم آباد) اپنے مالک کے وصال سے انتقال کر گیا۔ ’’اہلِ فقہ‘‘ (امر تسر) سنّیوں کی کم توجّہی سے بند ہوگیا، مگر اللہ تعالیٰ جزائے خیرِ کثیر و افردونوں جہاں میں میرے معزز گرامی دوست جناب مولانا شاہ محمد فاروق حسن خاں صاحب صابرؔی مدیر اخبار ’’دبدبۂ سکندری‘‘ اور ان کے صاحب زادے عزیز بہ جان سعادت اطوار گرامیِ شان عزیزی مولوی فضل حسن خاں نائب مدیر کو عطا فرمائے کہ ان کے اخبار کے صفحات تائید دینِ حق و مذہب اہلِ سنّ تکے لیے بِحَمْدِاللہِ تَعَالٰی بلا معاوضہ وطمعِ دنیا وقف پائے۔ یہ اللہ عَزَّوَجَلّ کا فضلِ حسن ہے۔‘‘ امام اہلسنت کے منصوبوں میں سے مذکورہ منصوبے کو ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ، توجہ بے توجہ رہی ، مزید غفلت مزید پستی ، اب کب ! تعمیر کی جانب صفت سیل رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ گلشن بھی ہمارا انجمن ضیائے طیبہ کا اس سمت قدم دیر آید درست آید کا مصداق ہے ۔شہر کراچی میں "ضیائے طیبہ" ایک معروف و فعال ادارہ ہے،جو اپنی ضیاباریوں کو مزید ضیابار کرنا چاہتا ہے کہ اسلاف کی روش ہمیشہ پرضیا ہوتی ہے اور اسی کے پیش نظر ماہنامہ’’ضیائے طیبہ ‘‘کا اجرا کیا ہے، جس کا پہلا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ۱۴سال قبل قیام پانے والے اس ادارے نے کیا کیا؟ کیا کر رہا ہے؟ اور کیا کرنا چاہتا ہے ؟ اس کا احاطہ بھی اب ضیائے طیبہ کا یہ جریدہ عوام و خواص کو ان شاء اللہ تعالی ماہوار باخبر رکھ کر کرے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے حبیب کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے صدقے ہمیں استقامت و خلوص نیت کے ساتھ اپنے دین و متین کی ترویج و اشاعت ہمیشہ پیش پیش رکھے۔ سیّد محمد مبشر قادری (ریسرچ اسکالر/ ڈائریکٹر اسکالرز انسائیکلوپیڈیا پروجیکٹ)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi