کنیت اور احکام


از: علامہ صاحبزاده ابوالبركات حق النبی سكندری ازہری مدّ ظلہ العالی 

كنيت وغيره سے متعلق چند باتیں ذہن نشین رہنا بے حد ضروری ہیں،جن میں طلبہ كے ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے اشکالات و سوالات کا حل موجود ہے۔

سب سے پہلی بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ’’کنیت‘‘ اور ’’لقب‘‘ میں فرق ہے، کنیت کا تعلق’’عزت وتكريم‘‘ سے ہوتا ہے،البتہ ’’اَلقاب‘‘ مذموم ومحمود بھی ہوا کرتے ہیں۔

اب اس کے بعد، یہ ضروری و اہم باتیں یاد کرلیں :

۱۔بچوں کی بھی کنیت رکھی جاسکتی ہے،جس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے،چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔

بخاری شريف میں سیّدنا انس بن مالک سے روایت موجود ہے جس میں سرورِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انس بن مالک کے چھوٹے بھائی کو’’ أباعمير ‘‘ كی كنيت سے پکارا تھا،جو ابھی چھوٹے تھے۔

اس حديث سے یہ بات واضح ہوئی کہ کنیت کے لئے اولاد کا ہونا شرط نہیں ہے۔

علامہ ابنِ عابدین شامی نے بچوں کی کنیت رکھنے کے متعلق یہ فرمايا ہے کہ اکثر علما نيک فالی كے طور پر اسے جائز سمجھتے ہیں۔

حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنه كو سركار نے ’’ابو عبد الرحمٰن‘‘ كی كنيت سے پکارا ہے،حالاں كہ اُن کی جب کوئی اولاد نہ تھی۔ (ديکھیے: مستدرک حاكم ، ٣/٣٥٣۔

۲ - مرد حضرات كی کنیت رکھنا بھی جائز ہے،اسی طرح خواتين بھی کنیت رکھ سکتی ہیں، مسندِ احمد بن حنبل میں روایت موجود ہے کہ نبی اکرم صلي الله تعالٰی عليه وسلم نے سيّده عائشہ کو ’’اُمِّ عبد الله‘‘ کی کنیت عطا فرمائی۔

۳ - کنیت بیٹے یا بیٹی کی نسبت سے رکھنے کی بھی کوئی قید نہیں ہے،جس طرح اكابر علما كی کنیت بیٹوں اور بیٹیوں کی نسبت سے رہی ہے۔

سیّدنا عثمان بن عفّان کی ايک کنیت ’’ابو ليلیٰ‘‘ بھی ہے اور سیّدنا ابو الدردا كی كنيت بھی اپنی صاحبزادی کی نسبت سے ہے۔

۴ - کوئی شخص ایک سے زائد ’’کنیت‘‘ اختيار كرسكتا ہے۔

سیّدنا عثمان بن عفان كی كنيت: ابو عمرو،ابو عبد الله اور ابو ليلیٰ ہے۔

۵ - کنیت رکھنے کے لئے بڑےبیٹے یا بیٹی کی نسبت شرط نہیں ہے، بلکہ بڑی چھوٹی اولاد میں سے جس کی نسبت چاہیں،کنیت اختيار كرليں۔

۶ - کنیت کے لئے اسی نام سے اولاد کا ہونا بھی شرط نہیں ہے،سیّدنا ابوبكر صدّيق كا كوئی بیٹا ’’بکر‘‘ نہ تھا، پھر بھی آپ کی کنیت ’’ابو بکر‘‘ ہے۔

۷ - کنیت کی نسبت محض اولاد كی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات ’’جمادات‘‘ و’’حيوانات‘‘ سے بھی ہوتی ہے،مثال: ابو تراب، ابو ہریرہ وغيره۔

اس ميں یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب کنیت جماد یا حيوان سے ہوتو اس وقت لفظ (ابو)’’صاحب يا والے‘‘ کے معنیٰ میں ہوگا، یعنی مٹّی والا،بلّی والا، وغيره۔

٨ - ایسے اكثر علما جن كی اولاد نہ تھی یا شادی ہی نہ کی تھی ان کی کنیات میں اسی معنیٰ ( ابو بمعنیٰ صاحب يا والا ) كا لحاظ رکھا جائے تو الجھن دور ہوجاتی ہے۔

مثال: ابو الوفا، بمعنیٰ وفادار۔

ابوالبركات بمعنیٰ بركتوں والا۔

ابو الفضل بمعنیٰ صاحبِ فضل۔

وغيره وغيره۔

 

 

 

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi