اسلامی سال کا چوتھامہینہ ربیع الثانی


وجہ تسمیہ :

اسلامی سال کے چوتھے مہینے کا نام ’’ربیع الآخر‘‘ ہے، اس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے کا نام رکھنے کے وقت موسم ربیع کا آخر تھا، اس لئے اس ماہ کا نام ربیع الآخر رکھا گیا۔

گیارھویں شریف :

اسی مہینہ مبارک میں مجدّدِ ما ئۃ سادسہ سیّدنا غوث الثقلین الشیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی الجیلانی الحنبلی المعروف پیران پیر ، پیر دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کا وصالِ مبارک ہوا۔ بعض نے نویں، بعض نے سترھویں اور بعض نے گیارھویں ربیع الآخر کو وصال شریف بتایا ہے۔ محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں ،

وَقَدِ اشْتَہَرَ فِیْ دِیَارِنَا ہٰذَا الْیَوْمُ الْحَادِیْ عَشَرَ وَہُوَ الْمُتَعَارِفُ عِنْدَ مَشَائِخِنَا مِنْ اَہْلِ الْہِنْدِ مِنْ اَوْلَادِہٖ

ترجمہ :

ہمارے ملک میں آج کل آپ کی تاریخ وصال، گیارھویں تاریخ کو مشہور ہے اور ہمارے ہندوستان کے مشائخ اور ان کی اولاد کے نزدیک یہی متعارف و مشہور ہے۔

ہر سال اس تاریخ کو لوگ سرکارِ غوثیت کا عرسِ مبارک کرتے ہیں، جس کو بڑی گیارھویں کہا جاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے اس ماہ کو ’’گیارھویں شریف ‘‘ کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ [1]

اس ماہِ مبارک کے نوافل و عبادات

چار رکعت نوافل :

اس مہینے کی پہلی اور پندرھویں اور انتیسویں تاریخوں میں جو کوئی چار رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُل ہُوَ اللہُ اَحَد پانچ پانچ مرتبہ پڑھے ۔ تو اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور اس کے لئے چار حوریں پیدا ہوتی ہیں۔ [2]

تیسری شب کے نوافل :

ربیع الثانی کے مہینے کی تیسری شب کو چار رکعت نماز ادا کرے ، قرآنِ حکیم میں سے جو کچھ یاد ہے پڑھے۔ سلام کے بعد یا بدوح یا بدیع کہے۔ [3]

پندرھویں شب کے نوافل :

اس ماہ کی پندرہ کو چاشت کے بعد چودہ رکعتیں دو، دو رکعات پڑھ کر،ادا کرے۔ اس نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۂ علق سات بار پڑھے۔ [4]

ایامِ بیض کے نفلی روزے :

ہر ماہ ایام بیض یعنی قمری مہینے کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخوں میں روزے رکھنا تمام عمر روزے رکھنے کے برابر شمار کیا جاتا ہے۔ [5]

مسئلۂ عرس و گیارھویں شریف

حقیقت عرس و گیارھویں :

اہلِ سنّت کے نزدیک عرس و گیارھویں جائز ہے اور احیائے اموات کے لئے فائدہ مند ہے اور اس کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

آیت ۱ :

وَسَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوۡتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا [6]

ترجمہ:

اور سلامتی ہے اُس(یحییٰ) پر جس دن پیدا ہوا ، اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ [7]

آیت ۲ ۔

وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوْمَ اَمُوۡتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا [8]

ترجمہ:

(عیسیٰ نے کہا) اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ [9]

ان آیات میں وقتِ وفات کو سلامتی کے ساتھ ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ یومِ وفات کی سلامتی حضراتِ انبیاو اولیا کی امّت کے اور بعد والوں کے حق میں یادگار ہے۔ اسی یومِ وفات کی یادگار کا نام عرس ہے، تو عرس کی اصل ان آیات سے ثابت ہوگئی۔ اسی طرح حدیث سے بھی ثابت ہے۔

حدیث ۱ :

ان النبی ﷺ کان یاتی قبورا الشہداء با حد علی راس کل حول ۔ [10]

ترجمہ:

نبیﷺ شہدائے احد کی قبروں پر ہر سال کے کنارے پر تشریف لایا کرتے تھے۔

حدیث ۲ :

کان النبی ﷺ یزدرا الشہداء باحد فی کل حول و اذا بلغ الشعب رفع صوتہ فیقول سلام علیکم بما صبرتم نعم عقبی الدار ثم ابو بکر رضی اللہ عنہ کل حول یفعل مثل ذلک ثم عمر ابن الخطاب، ثم عثمان رضی اللّٰہ عنہما و کانت فاطمۃ تاتیہم وتدعو۔ [11]

ترجمہ:

نبی ﷺ نے شہدائے احد کی زیارت قبور کے لئے ہر سال تشریف لاتے اور جب شعب کے قریب پہنچتے تو بلند آواز سے فرماتے سلام علیکم (الٰی اٰخرہ ) تم پر سلامتی ہے اس کے بدلے میں جو تم نے صبر کیا تو کیا اچھی ہے تمہاری قیام گاہ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر سال اسی طرح کرتے رہے ، پھر حضرت عمر بن خطاب پھر عثمان غنی اور حضرت فاطمہ آتیں اور دعا کرتی تھیں۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم۔

ان احادیث میں یہ تو صاف موجود ہے کہ حضور ﷺ ہر سال احدمیں تشریف لاتے اور قبورِ شہدا کی زیارت فرماتے، اور سال سے مراد ان کا وہی جنگِ احد کا واقعہ ہے ۔ یعنی جب جنگِ احد کا وہی دن یعنی شہداء کا یومِ وفات و شہادت آتا اس میں تشریف لاتے تو یوم وفات پر زیارت کے لئے مزار پر حاضر ہوتے اور ایصالِ ثوب کرتے اور ان سے کسبِ فیض کا نام عرس ہے تو گویا عرس کی اصل فعلِ رسول ﷺ اور فعلِ خلفائے راشدین سے ثابت ہوئی۔

دلائل از اقوالِ سلف و خلف :

عرس کی اصل تو شارع علیہ السلام و فعل خلفائے راشدین سے ثابت ہوچکی لیکن متاخرین نے اپنے زمانے میں اس پر التزام کرلیا ،اسی وجہ سے یہ متاخرین کی طرف منسوب ہوگیا، چنانچہ حضرت شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ما ثبت من السنۃ میں فرمایا:

’’ اور بعض مغرب کے مشائخ متاخرین نے ذکر کیا کہ وہ دن جس میں جنابِ الٰہی میں پہنچے اس میں خیر و برکت اور نورانیت کی اور ایام سے زیادہ امید کی جاتی ہے تو یہ عرس متاخرین کی مستحسن کی ہوئی چیزوں سے قرار پایا۔ [12]

مانعین کے استاذ الکل حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی تحفۂ اثنا عشریہ میں فرماتے ہیں:

’’ حضرت علی اور ان کی اولاد ِ طاہرہ کو تمام امّت پیروں اور مرشدوں کی طرح مانتی ہے اور امورِ تکوینیہ کو ان سے وابستہ جانتی ہے اور فاتحہ اور درود اور صدقات اور نذرونیاز اور منت ان کی رائج و معمول ہے جیسا کہ تمام اولیاسے یہی معاملہ ہے اور شیخین کا ان میں کوئی زبان پر نام بھی نہیں لیتا اور فاتحہ اور درود اور نذر و منّت اور عرس و مجلس میں شریک نہیں کرتا۔‘‘ [13]

مخالفین کے مسلم پیشوا و امام مولوی اسمٰعیل دہلوی صراطِ مستقیم میں لکھتے ہیں:

’’پس ان امورِ فاتحہ، عرس ، نذر و نیاز کی خوبی میں شک و شبہ نہیں ہے۔‘‘ [14]

خود مانعین کے مسلّم فتاوٰی دیوبند میں ہے:

’’ کوئی شخص کسی کے مزار پر بلا تعیّنِ تاریخ و بلا اہتمام خاص کے اگر ہمیشہ سالانہ بھی بلایا کرے تو کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ مستحب ہے۔‘‘ [15]

الحاصل عرس کے جائز بلکہ مستحب ہونے پر کافی دلائل موجو دہیں ، جن سے اہلِ سنّت کے مسلک کی تائید ہوتی ہے اور مخالفین کے پیشواؤں نے بھی اس کے جواز و استحباب کا اعتراف کرلیا تو وہابیہ کا اس کو ناجائزو بدعت کہنا غلط و باطل قرار پایا۔

 



[1] ماثبت من السنّۃ فی ایّام السنۃ، صفحہ ۱۲۳۔

[2] ’’ فضائل الایام والشہور‘‘، صفحہ ۳۷۵ بحوالہ ’’جواہر غیبی۔

[3] ’’لطائفِ اشرفی ‘‘ جلد دوم ،صفحہ ۳۴۱۔

[4] حوالۂ مذکورۂبالا۔

[5] غنیۃ الطالبین ، صفحہ ۴۹۸۔

[6] پ ۱۶ ، سورۃ مریم: ۱۵۔

[7] کنزالایمان۔

[8] پ ۱۶ ، سورۃ مریم: ۳۳۔

[9] کنزالایمان۔

[10] رواہ ابن ابی شیبۃ۔

[11] رواہ البیہقی از شرح الصدور، صفحہ ۸۷۔

[12] ماثبت من السنۃ، صفحہ ۱۷۴۔

[13] تحفۂ اثنا عشریہ، مطبوعہ فخر المطابع، صفحہ ۲۲۸۔

[14] صراط مستقیم ، صفحہ ۲۵۵۔

[15] فتاوٰی دیوبند، صفحہ ۱۳ ، جلد ۲۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi