گیارھویں شریف


تحریر: بیہقیِ وقت حضرت علامہ مفتی محمد منظور احمد فیضی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

 بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم وَ عَلٰٓی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖٓ اَجْمَعِیْن۔اَمَّا بَعْد

طلب کا منہ تو کس قابل ہے یا غوث
مگر تیرا کرم کامل ہے یا غوث ﷜
دہائی یا محی الدیں دہائی
بَلا اسلام پر نازل ہے یا غوث﷜

گیارھویں شریف حضور غوث الثقلین، پیرانِ پیر، محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی غوثِ صمدانی شہبازِ لا مکانی سیّدی السّیّد محی الدین عبد القادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیّ کی، ایصالِ ثواب کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے اور ایصالِ ثواب کی ایک صورت ہے۔

شریعتِ محمدیّہ میں بدنی اور مالی عبادت کا ثواب دوسرے مسلمان، خواہ وہ زندہ بحیاتِ دنیوی ہو یا وصال یافتہ، کو بخشنا جائز ہے ( رَدُّ الْمُحْتَار ) اور وہ ثواب اس مسلمان کو پہنچتا ہے اور اسے نفع دیتا ہے۔ اس کا ثبوت قرآنِ مجید و حدیث شریف اور اقوالِ فقہائے کرام سے ہے۔ قرآنِ کریم نے بہت مقامات پہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لئے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور نمازِ جنازہ میں بھی فوت شدہ مسلمان کے لئے دعا کی جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ پہلے مسلمانوں کے لیے دعا کرتے رہیں گے۔

چناں چہ فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعْدِہِمْ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالْاِیۡمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۱۰

( سورۃ الحشر: ۱۰)

ترجمہ:

اور وہ (مسلمان) جوان کے بعد آئے، عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ (کنزالایمان)

قال عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ دخل فی ھذا الفی کل من ھو مولود الی یوم القیامۃ فی الاسلام۔

اگر ایک مسلمان کی دعا دوسرے مسلمان کو نہیں پہنچتی اور اسے فائدہ نہیں دیتی تو یہ حکمِ دعا اور عملِ دعا فضول و لغو ٹھہرے گا۔

عاص بن وائل نے وصیّت کی کہ میری طرف سے(میرے فوت ہونے کے بعد) سوغلام آزاد کیے جائیں۔ حسبِ وصیّت اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کیے اور اس کے بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ میں بھی اپنے باپ کی طرف سے بقیہ پچاس غلام آزاد کروں اور کہا اس وقت تک آزاد نہیں کروں گا جب تک حضورﷺسے نہ پوچھ لوں، پھر وہ حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور سارا قصّہ عرض کیا اور پوچھا:’’ افاعتق عنہ‘‘ کیا میں اپنے باپ کی طرف سے باقی پچاس غلام آزاد کروں؟

فقال رسول اللہﷺ انہ لو کان مسلمًا فاعتقتم عنہ او تصدقتم عنہ او حججتم عنہ بلغہ ذلک.

حضور علیہ الصّلاۃ و السّلام نے فرمایا: اگر وہ مسلمان ہوتا تو تم اس کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ و خیرات کرتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو اُسے یہ (یعنی اُن چیزوں کا ثواب)پہنچتا۔

(سننِ ابو داؤد، ج ۲،ص،۴۳؛ سننِ بیہقی، ج ۶، ص۲۷۹؛ المغنی لابن قدامۃ، ج۳، ص۵۲۱؛ مصنّفِ عبد الرزّاق، ج ۹،ص۶۱تا ۶۲؛ مشکوٰۃ شریف، باب الوصایا، ص۲۶۶؛ طبعِ قدیمی کتب خانہ،کراچی۔)

امام المحدثین حضرت شیخ عبد الحق محدث و محقق حنفی دہلوی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

دل علی ان الصّدقۃ لا تنفع الکافر ولاتنجیہ و علی ان المسلم ینفعہ العبادۃ المالیّۃ و البدنیّۃ۔ (لمعات ہامش مشکوٰۃ، ص۲۲۶)

مزید فرماتے ہیں:

’’ ازیں حدیث مفہوم شدکہ صدقہ سود ندارد کافر را و رستگاری نمے بخشد ازعذاب و نیز معلوم شدکہ بمسلمان میرسد ثوابِ عبادتِ مالی و بدنی ہردو۔ ‘‘

(اشعۃ اللمعات، جلد ۳،صفحہ ۱۰۰)

یعنی اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ مسلمان کو مالی اور بدنی عبادت کا ثواب پہنچتا ہے اور اُسے نفع دیتا ہے بخلاف کافر کے کہ ’’مرگیا مردود نہ فاتحہ نہ درود‘‘، ہاں بدنی عبادت میں نیابت جائز نہیں یعنی کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز فرض پڑھ دے تو اس کی نماز ادا نہ ہوگی۔ہاں نماز کا ثواب بخشا جاسکتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:

من یضمن لی منکم ان یصلّی لی فی مسجد العشار رکعتین او اربعًا ویقول ھٰذہٖ لابی ھریرۃ۔

یعنی کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ مسجدِ عشار میں میرے لیے دو رکعت یا چار رکعت نماز پڑھے اور کہے یہ ابو ہریرہ کے لیے ہے (یعنی اس نماز کا ثواب ابو ہریرہ کے لیے ہے)۔

(مشکوٰۃ شریف، کتاب الفتن، باب الملاحم، صفحہ۴۶۸؛ سنن ابو داؤد، ج۲،ص۲۴۴،مطبوعہ مکتبۂ امدادیّہ، ملتان)

اِسی طرح ہر عبادت کا ثواب بخشا جاسکتا ہے اور اسے پہنچتا ہے؛ علاوہ ازیں، بہت سی حدیثیں اس بارے میں وارد ہیں:

والاحادیث والاٰثار فی ھذہ الباب اکثر من ان تحصی۔

یعنی اس باب میں احادیث و آثار شمار کرنے سے بھی زیادہ ہیں۔ (شرح ِعقائد، صفحہ۱۲۳)

دعاء الاحیاء للاموات و صدقتھم ای صدقۃ الاحیاء عنھم ای عن الاموات نفع لھم ای للاموات خلافا للمعتزلۃ۔

یعنی زندوں کا وفات یافتہ مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور زندوں کا فوت شدہ مسلمانوں کی طرف سے صدقہ کرنا ان کےلیے نفع ہے بخلاف متعزلہ کے۔

(شرح عقائد، صفحہ ۱۲۲)

خاتم المحققین علّامہ ابنِ عابد ین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

و یقرا یٰس لما ورد من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰس خفف اللہ عنھم یومئذ وکان لہ بعدد من فیھا حسنات (بحر بحوالۃ ردّ المحتار) فی الحدیث من قرأ الاخلاص احد عشر مرۃ ثمّ وھب اجرھا للاموات اعطی من الجر بعدد الاموات(در)وفی شرح اللباب و یقرأ من القرآن ما تیسرلہ من الفاتحۃ و اوّل البقرۃ الی المفلحون و اٰیۃ الکرسی و اٰمن الرسول وسورۃ یٰس و تبارک الملک و سورۃ التکاثر و الاخلاص اثنی عشر مرّۃ اوعشرًا او سبعًا او ثلاثًا ثم یقول اللّٰھم اوصل ثواب ما قرأناہ الی فلان او الیھم اھ تنبیہ صرح علماؤنا۔۔۔۔۔۔۔بان الانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلٰوۃ او صومًا او صدقۃ او غیرھا کذا فی الھدایۃ۔۔۔الافضل لمن یتصدق نفلًا ان ینوی لجمیع المؤمنین و المؤمنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرۃ شیء اھ ھو مذھب اھل السنۃ و الجماعۃ ۔۔۔و فی البحر من صام او صلی او تصدق و جعل ثوابہ لغیرہ من الاموات و الاحیاء جاز و یصل ثوابھا الیھم عند اھل السّنۃ و الجماعۃ کذا فی البدائع ثم قال و بھذا علم انّہ لا فرق بین ان یکون المجعول لہ میّتًا او حیًّا و الظاھر انّہ لا فرق بین ان ینوی بہ عند الفعل للغیر او یفعلہ لنفسہٖ بعد ذلک یجعل ثوابہ لغیرہ لاطلاق کلامھم وانّہٗ لافرق بین الفرض و النفل اھ و فی جامع الفتاوٰی و قیل لا یجوز فی الفرائض اھ۔۔۔۔سئل ابن حجر المکی عما لو قرأ لاھل المقبرۃ الفاتحۃ ھل یقسم الثواب بینھم او یصل لکل منھم مثل ثواب ذالک کاملًا فاجاب بانہ افتی جمع بالثانی و ھوا لائق بسعۃ الفضل۔

(رَدُّ الْمُحْتَار، جلد ۳، صفحہ ۱۴۱،طبع دار احیاء التراب العربی، بیروت)

خلاصہ: یعنی جو گورستان میں داخل ہوا اور اس نے سورۂ یٰسٓ پڑھ کر ان کو بخشی تو اس دن گورستان والوں سے اللہ عذاب میں تخفیف کرے گا اور اس کو اموات کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملیں گی اور ایک حدیث میں آیا کہ جس نے گیارہ مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھ کر اس کا ثواب اموات کو بخشا، اموات کی تعداد کے مطابق اس ثواب بخشنے والے کو ثواب ملے گا، قرآنِ پاک مختلف مقامات سے تلاوت کرکے اس کا ثواب وصال یافتہ حضرات کو یوں بخشے کہ اے اللہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اس کا ثواب فلاں مخصوص شخص کویا ان سب کو بخش دے۔

تنبیہ: ہمارے علمائے احناف نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ انسان کو ازروئے شریعت اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب اپنے غیر کو بخش دے، خواہ وہ عمل نماز ہو یا روزہ، صدقہ ہو یا غیرِِ صدقہ اور اس شخص کےلیے افضل یہ ہے جو نفلی صدقہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ سب مومن مردوں اور عورتوں کی نیّت کرے اس لیے کہ اس کا ثواب ان سب کو پہنچے اور اس کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔ یہی اہلِ سنّت کا مذہب ہے۔ ثواب بخشنے والا زندہ کو بھی ثواب بخش سکتا ہے اور مردے کو بھی، قبل ازعمل بھی نیّت کرسکتا ہے اور بعد ازعمل بھی، فرض بھی اور نفل بھی؛ ایک مرتبہ فاتحہ پڑھ کر اگر اہلِ مقبرہ کو بخش دے تو ان میں سے ہر ایک کو پوری فاتحہ کا ثواب ملے گا اِنْ شَآءَ اللہُ الْغَفَّار۔

امام سیّدی عبد الوھّاب شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

و مذھب اھل السّنۃ ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہٖ۔

یعنی اہلِ سنّت کا مذہب یہ ہے کہ انسان اپنے ثواب کا عمل غیر کو بخش سکتا ہے۔

(کتاب المیزان للشعرانی، جلد ا، صفحہ ۲۱۰)

فاتحہ، تیجہ(قُلْ خوانی)، دسواں، چالیسواں، شش ماہی، سالانہ عرس، جمعراتیں، گیارھویں شریف، نیازِ اِ مامین، سب اسی ایصالِ ثواب میں داخل ہیں کہ ان تقریبات میں جو کلام و طعام لِوَجْہِ اللہ ہوتا ہے اس کا ثواب وصال یافتہ حضرات کو بخشا جاتا ہے، باقی رہا جانوروں کو بہ نیّتِ ایصالِ ثواب اُن کی طرف منسوب کرنا یا ماکولات اور مشروبات دودھ شربت و پانی پران بزرگوں کا نام آنا بھی موجبِ حرمت نہیں ہے، بلکہ یہ بھی حدیث شریف سے ثابت ہے۔

حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضورﷺسے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! میری ماں فوت ہوچکی ہے تو (اس کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ حضور ﷺنے فرمایا ’’پانی‘‘۔ تو حضرت سعد نے کنواں کھدوایا اور کہا ھٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدٍ یہ سعد کی ماں (متوفیہ) کا کنواں ہے۔

(سننِ ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، ج ا، ص ۲۳۶؛ مسندِ احمد، ج ۵، ص ۲۸۵، ج۶، ص۷، رقم الحدیث ۲۲۸۳۶،۲۵۳۴۶؛ سننِ بیہقی، ج ۴، ص۱۸۵؛ سننِ نسائی کبریٰ، ج ۴، ص ۱۱۲، رقم الحدیث ۶۴۹۳؛ طبرانیِ کبیر، ج ۶، ص ۲۱، رقم الحدیث ۵۲۸۳؛ ابنِ عسا کر،ج ۱، ص۲۴۸؛ سننِ سعید بن منصور، ج ا،ص ۱۲۴،رقم الحدیث ۴۱۹؛ طبقاتِ ابنِ سعد، ج ۳، ص۶۱۵؛ مصنّفِ ابنِ ابی شیبہ، ج ۸، ص۲۳۲؛ سننِ نسائی مجتبیٰ، ج۲، ص ۱۳۳؛ مشکوٰۃ صفحہ ۱۶۹؛ شرح عقائد، صفحہ ۱۲۳)

اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اُس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد اس کنویں پر اُم ّ ِسعد کا نام نہ آنے دیتے۔ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ بوقتِ ذبح جانور پر غیر اللہ کا نام نہ آئے؛ جان کا نکالنا خالقِ جان ہی کے نام پر ہو۔

(تفسیرِ خازن و مدارک، جلد ا، صفحہ ۱۰۳)

قبل از ذبح یا بعد از ذبح بغرضِ ملکیت یا بغرضِ ایصالِ ثواب وغیرہ کسی کا نام جانورو غیرہ پر آنا یہ سببِ حرمت نہیں مثلاً یوں کہا جاتا ہے:

مولوی صاحب کی گائے،خان صاحب کا دُنبہ،ملک صاحب کی بکری، عقیقے کا جانور، قربانی کا بکرا، ولیمے کی بھینس۔

اِن جانوروں پر جو غیر اللہ کا نام پُکارا گیا تو کیا یہ حرام ہوگئے؟ ہرگز نہیں۔ یہی حکم گیارھویں کے دودھ و شیرینی، حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف منسوب بکری اور منّت والےجانوروں کا ہے۔

(تفسیراتِ احمدیہ،ص۴۴،۴۵،طبع رحمٰن گل پبلشرز، پشاور)

باقی رہا تعیینِ یوم، تو یہ نہ فرض ہے نہ واجب۔ متفرق ایام میں بھی ایصالِ ثواب ہو سکتا ہے، ہاں ان کے وصال والے دن کو دیگر ایام پر امتیازی شان حاصل ہے، بہ وجہِ فرمانِ خداوندِ تعالیٰ:

وَذَکِّرْ ھُمْ بِاَیّٰىمِ اللہِؕ(سورۃ ابراھیم: ۵)

ترجمہ: اور انہیں اللہ کے دن یاد دِلا ۔ (کنز الایمان)

کے۔ لہٰذا، اکثر و بیش تر تقریبات ان خاص دنوں میں منعقد ہوتی ہیں۔

باقی رہا جائز اور مستحب کام (ایصالِ ثواب بہ صورتِ گیارھویں وغیرہ)کو اتناپابندی سے کیوں ادا کیا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کی پابندی حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی ثابت ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصّلاۃ والسّلام نے نمازِ فجر کے وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ تو اپنے امّید افزا اسلامی عمل کی مجھے خبر دے کیوں کہ میں نے تیرے جو توں کی آواز اپنے آگے بہشت میں سُنی ہے؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواباً عرض کیا کہ دن ہو یا رات جب بھی میں وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے(تحیۃ الوضو کی جو نفلی نماز ہے، نہ فرض ہے اور نہ ہی واجب)جتنی رکعتیں میرے مقدّر میں لکھی جاتی ہیں پابندی سے پڑھتا ہوں۔

(صحیح بخاری، باب فضل الطہور باللیل و النّہار ، رقم الحدیث (۱۱۴۹) و صحیح مسلم، باب من فضائل بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ ، رقم الحدیث(۲۴۵۸)؛ مشکوٰۃ، صفحہ ۱۱۶؛ الترغیب و الترہیب، ص۵۴، رقم الحدیث(۳۵۱)؛مطبوعہ دارِ ابنِ حزم، بیروت)

اس نفلی نماز کی پابندی کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ بہشت میں غلامانہ طور پر حضور ﷺسے آگے چل رہے تھے۔ معلوم ہوا کسی نفلی یا استحبابی کام پر ہمیشگی کرنا مع عدم الفرضیّۃ اعتقادًا او مع التّرک احیانًا موجبِ حرمت نہیں، بلکہ موجب ِسعادت ہے۔

امام المحدثین برکۃ رسول اللہﷺ فی الھند حضرت شیخ عبد الحق محدث و محقق دہلوی علیہ الرحمۃ گیارھویں شریف کے متعلق فرماتے ہیں:

و قد اشتھر فی دیارنا ھذا الیوم الحادی عشر و ھوالمتعارف عند مشائخنا من اھل الھند من اولادہ کذا ذکر شیخنا و سیّدنا السّیّد البھی الرضی الوصی ابو المحاسن سیّدی الشّیخ موسی الحسنی الجیلانی۔

یعنی ہمارے شہروں میں یہ گیارھویں کا دن مشہور ہے اور یہی اہلِ ہند کے مشائخ کے نزدیک جو حضرت محبوبِ سبحانی کی اولاد سے ہوں ان کے نزدیک بھی مشہور ہے جیسا کہ سیّدی وشیخی سیّد موسیٰ پاک ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیّ نے ذکر فرمایا ہے۔

(’’مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ‘‘، صفحہ ۱۲۳)

فان قلت ھل لھذا العرف الذی شاع فی دیارنا فی حفظ اعراس المشائخ فی ایام وفاتھم اصل فان کان عندک علم بذلک فاذکرہ قلت قد سالت عن ذلک شیخنا الامام عبد الوھاب المتقی المکی فاجاب بان ذلک من المشائخ و عاداتھم ولھم فی ذلک نیات۔۔۔و قد ذکر بعض المتاخرین من مشائخ المغرب ان الیوم الذی وصلوا فیہ الٰی جناب العزّۃ و حظائر القدس یرجی فیہ من الخیر و الکرامۃ و البرکۃ والنّورانیّۃ اکثر و اوفر من سائر الایّام۔

یعنی اگر تو کہے کہ کیا اس عرف کےلیے جو ہمارے دیار میں مشہور ہے کہ بزرگانِ دین کے یومِ وفات کی حفاظت بہ صورتِ عرس کی جاتی ہے کوئی اصل ہے اگر ہے تو بیان کرو؟ میں جواب دوں گا کہ میں نے اپنے شیخ سیّدی امام عبد الوہاب متقی مکی علیہ الرحمۃ سے یہ پوچھا تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ یہ مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کا معمول ہے اور اس میں ان کی (بہترین)نیات ہیں۔۔۔اور بعض متأخرین مشائخِ مغرب نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ دن جس دن میں وہ حضرات رب کی بارگاہ میں پہنچے اس دن میں خیر و کرامت ، برکت و نورانیت کی زیادہ امّید ہے بہ نسبت اور دنوں کے۔ (’’مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ‘‘، صفحہ۱۲۴)

شیخ المحدثین حضرت شیخ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

واگر مالیدہ و شیر بر ائے فاتحہ بزر گے بقصدِ ایصالِ ثواب بروحِ ایشاں پختہ بخورند جائز است مضائقہ نیست۔

(فتاوٰی عزیزی، جلد ا، صفحہ ۵۰، مطبوعۂ دیوبند)

مزید فرماتے ہیں :

طعامیکہ ثوابِ آں نیاز حضرت امامین نمایندوبر آں فاتحہ و قل و درود خواند ن تبرک می شود و خوردن بسیار خوب است۔

یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما کی نیاز کریں اس پر قل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعثِ برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے۔

(فتاوٰی عزیزی، جلد ا، صفحہ ۷۸، مطبوعۂ دیوبند)

مولوی اسمٰعیل دہلوی لکھتا ہے:

پس درخوبی ایں قدر امر از مور مرسومہ فاتحہ ہاو اعراس و نذر و نیاز اموات شک و شبہ نیست ۔

یعنی پس امورِ مروجّہ یعنی اموات کے فاتحوں اور عرسوں اور نذرونیاز سے اس قدر امر کی خوبی میں کچھ شک و شبہ نہیں۔

(صراطِ مستقیم، ص۵۵)

کتاب ’’وَجِیْزُ الصِّرَاط فِی مَسَآئِلِ الصَّدَقَاتِ وَالْاِسْقَاط‘‘ میں مصنّفِ علّام ابنِ مُلّا جیون علیہما الرحمۃ نے گیارھویں شریف کا بایں الفاظ مستقل عنوان کی حیثیت سے ثبوت کیا ہے:

’’مسئلہ ۹ دربیانِ عرسِ حضرت غوث الثقلین بتاریخِ یازدہم ہر ماہ و بیان حکم خوردن نذرو نیاز و غیرہ صدقات مر اغنیا را۔ حضرت حامد قاری لاہوری درنذریت یازدہم گفگتگوی طویل کردہ اندو او را صدقہ تطوّع قرار دادہ اند ‘‘ (و صدقہ تطوّع اغنیارا نیز مباح است فیضی)۔

( وَجِیْزُ الصِّرَاط، صفحہ ۸۰ )

و ازہمیں جنس است طعام یازدہم کہ عرسِ حضرت غوث الثقلین کریم الطرفین قرۃ عین الحسنین محبوبِ سبحانی قطبِ ربّانی سیّدنا و مولانا فرد الافراد ابی محمد الشیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ست چوں مشائخ دیگر راعرسی بعد سال معین می کردند آں جناب را درہرماہے قرار داداہ اند۔ ( وَجِیْزُ الصِّرَاط، صفحہ ۸۲ )

یعنی حضرت غوث الثقلین کے عرس کے بیان میں جو ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو ہوتا ہے اورنذر ونیاز وغیرہ صدقات کھانے کے حکم کے بیان میں حضرت حامد قاری لاہوری نے گیارھویں شریف کی نذر کے بارے میں طویل گفتگو کی ہے اور اس کو صدقۂنفل قرار دیا ہے۔

(اور صدقۂنفل اغنیا کو بھی مباح ہے۔ فیضی)

اور گیارھویں کا طعام بھی اسی جنس سے ہے کہ حضرت غوث الثقلین، کریم الطرفین،قرۃ عین الحسنین ،محبوبِ سبحانی،قطبِ ربانی، سیّدنا و مولانا فرد الافراد ابی محمد الشیخ محی الدین عبد القادر جیلانی کا عرس ہے، جیسے دیگر مشائخ کا عرس سال بعد معیّن کیا گیاہے، حضرت محبوبِ سبحانی قُدِّسَ سِرُّہٗ کا عرس ہر ماہ مقرر کیا گیا ہے۔

رشید احمد گنگوہی اور اشرف علی تھانوی کے پیرو مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ’’فیصلۂ ہفت مسئلہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’نفسِ ایصالِ ثوابِ ارواح میں کسی کو کلام نہیں اس میں بھی تخصیص و تعیین کو موقوف علیہ ثواب کا سمجھے یا واجب، فرض اعتقاد کرے تو ممنوع ہے اور اگر یہ اعتقاد نہیں بلکہ کوئی مصلحت باعثِ تقییدِ ہیئتِ کذائیہ ہے تو کچھ حرج نہیں جیسا بمصلحتِ نماز میں سورۂ خاص معیّن کرنے کے فقہائے محققین نے جائز رکھا ہے اور تہجد میں اکثر مشائخ کا معمول ہے۔۔۔۔جیسے نماز میں نیّت ہر چند دل سے کافی ہے، مگر موافقتِ قلب و لسان کےلیے عوام کو زبان سے بھی کہنا مستحسن ہے۔ اسی طرح اگر یہاں زبان سے کہہ لیا جائے کہ یا اللہ اس کھانے کا ثواب فلاں شخص کو پہنچ جائے تو بہتر ہے پھر کسی کو خیال ہوا کہ لفظ اس کا مشار الیہ اگر روبرو موجود ہو تو زیادہ استحضارِ قلب ہوکھانا روبرولانے لگے، کسی کو یہ خیال ہوا کہ یہ ایک دعاہے اگر کچھ کلامِ الہٰی بھی پڑھا جائے تو قبولیتِ دعا کی بھی امّید ہے اور اس کلام کا ثواب بھی پہنچ جائے گا کہ جمع بین العبادتین ہے۔۔۔۔۔اور گیارھویں حضرت غوثِ پاک قُدِّسَ سِرُّہٗ کی دسواں ،بیسواں ،چہلم، شش ماہی، سالیانہ وغیرہ اور توشۂ حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اور سرمنیِ حضرت شاہ بوعلی قلندر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حلوائے شبِ براءت اور دیگر طریقِ ایصال ِثواب کے اسی قاعدے پر مبنی ہیں۔‘‘

(فیصلۂ ہفت مسئلہ، صفحہ ۶ تا ۷)

مزید فرماتے ہیں:

’’پس حق یہ ہے کہ زیارتِ مقابرانفراداً و اجتماعاً دونوں طرح جائز اور ایصالِ ثواب و طعام بھی جائز اور تعیینِ تاریخ مصلحتاً بھی جائز تو سب مل کر بھی جائز رہا۔۔۔۔

مشرب فقیر کا اس امر میں یہ ہے کہ ہر سال اپنے پیرو مرشد کی روحِ مبارک کو ایصالِ ثواب کرتا ہوں، اوّل قرآن خوانی ہوتی ہےاور گاہے گاہے اگر وقت میں وسعت ہوئی تو مولود (میلاد شریف )پڑھا جاتا ہے پھر ما حضر کھانا کھلایا جاتا ہے اور اس کا ثواب بخش دیا جاتا ہے۔‘‘ (فیصلۂ ہفت مسئلہ، صفحہ۸،۹)

مولوی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے:

اور بعض محض اللہ تعالیٰ کےلیے نیاز دیتے ہیں اور ان کی نیّت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طعام کا ثواب فلاں بزرگ کی روح کو پہنچا دے، یہ جائز ہے اور ایسا طعام وشیرینی حلال ہے بلکہ ثواب ہے۔

(فتاوٰی اشرفیہ، ص ۱۵۳)

٭٭٭٭٭٭٭

بندۂ پروردگارم اُمّتِ احمد نبی
دوست دارم چار یار تابع اولادِ علی
مذہبِ حنفیّہ دارم ملّتِ حضرت خلیل
خاک پائے غوثِ اعظم زیرِ سایہ ہر ولی


 

 

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi