ڈاکٹر اقبال اور ختمِ نبوّت


تحریر : مولانا محمد ثاقب رضا قادری (لاہور)

علامہ اقبال نے حکومتِ انگلشیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ مسلمانوں سے باغیانِ ختم نبوت کو علاحدہ ملت قرار دیا جائے ، آپ کے الفاظ یہ ہیں:

’’میری رائے میں حکومت کے لیے بہترین طریق کار یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے علاحدہ جماعت تسلیم کرلے، یہ قادیانیوں کے عقائد کے عین مطابق ہوگا اور اس طرح ان کے علاحدہ ہوجانے کے بعد مسلمان ویسی ہی رواداری سے کام لے گا جیسے وہ باقی مذاہب کے معاملے میں اختیار کرتا ہے۔ ‘‘

(غازی ختم نبوت، ص۱۳۸ بحوالہ حرفِ اقبال،ص۱۲۹،۱۲۸)

۲۱ جون ۱۹۳۶ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کے نام ایک خط میں علامہ اقبال نے لکھا:

"I have no doubt in my mind that
the Ahmadis are traitors both to Islam and India."

(Thoughts and Reflections of Iqbal, page 306, by Syed Abdul Wahid)

’’میں اپنے ذہن میں اس امر کے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ احمدی اسلام اور ہندوستان کے غدار ہیں۔‘‘

(علامہ اقبال اور فتنۂ قادیانیت، ص۱۳۹)

۶ جون ۱۹۳۶ء کو پروفیسر سید الیاس برنی کی کتاب قادیانی مذہب کے وصول ہونے پر مصنفِ کتاب کو تاثرات دیتے ہوئے علامہ اقبال لکھتے ہیں:

’’آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ کتاب قادیانی مذہب اس سے بہت پہلے موصول ہوگئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب بے شمار لوگوں کے لیے چراغِ ہدایت کا کام دے گی اور جو لوگ قادیانی مذہب پر مزید لکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تو ضخیم کتاب ایک نعمت غیر مترقبہ ہے جس سے ان کی محنت و زحمت بہت کم ہوگئی ہے۔‘‘

(علامہ اقبال اور فتنۂ قادیانیت، ص۱۵۰)

آپ مزید لکھتے ہیں:

‘‘میری ناقص رائے میں اس مسئلے کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہوگی۔’’

(علامہ اقبال اور فتنۂ قادیانیت، ص۱۵۲)

 

(ماخوذ از تحریکِ ختمِ نبوّت اور نوائے وقت ، صفحہ 51 تا 52)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi