بیت المقدس تاریخ


تحریر: ڈاکٹرمحمدحسین مشاہد رضوی (مالیگاؤں)

بیت المقدس یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کردہ معبد ہے، جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔

بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہِ صیہون ہے جس پر مسجدِ اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ ِصیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔
قدیم تاریخ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریلِ امین کی رہ نمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر معراجِ آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحیِ الٰہی کے مطابق مسجدِ بیت المقدس (مسجدِ اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصۂ دراز کے بعد حضرت سليمان علیہ السلام (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجدِ بیت المقدس کو ہیکلِ سلیمانی کہتے ہیں۔

ہیکلِ سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 ق م میں شاہِ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دورِ بربادی میں حضرت عزیر علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔

بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہِ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرودِ اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکلِ سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکلِ سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔

137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نےعیسائیت قبول کر لی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔

مسلم تاریخ:

جب نبی کریم ﷺ معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبے (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہدِ فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجدِ اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔

1099 ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔

جدید تاریخ اور یہودی قبضہ :s

پہلی جنگِ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب، اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلۂ اوّل ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیےاسے ’’دیوارِ گریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔

مسجدِ اقصی:

مسجدِ اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اوّل اور خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مقامی مسلمان اسے ’’المسجد الاقصیٰ‘‘ یا ’’الحرم القدسی الشریف‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے، جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جب کہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجدِ حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجدِ اقصیٰ میں تمام انبیا علیھم الصلاۃ والسلام کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔

مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجدِ اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویلِ قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانۂ کعبہ ہوگیا۔

مسلم تعمیرات:

جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجدِ اقصٰی کہلائی کیوں کہ قرآنِ مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجدِ اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجدِ اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجدِ اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد ِسلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطورِ جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجدِ اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔

مسجدِ اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سليمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلّی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو، جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا، اقصیٰ کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

سانحۂ بیت المقدس:

21؍ اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اوّل کو آگ لگادی، جس سے مسجدِ اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلے کی طرف کا بڑا حصّہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذرِ آتش ہوگیا، جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح ِبیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ ۔ صلاح الدین نے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لئے تقریباً 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں گے۔

اس الم ناک واقعے کے بعد خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی امّتِ مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریباً ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہوگئی۔

یہودی اس مسجد کو ہیکلِ سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ وہ کبھی بھی بذریعۂ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکلِ سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi