عورت کا اپنی نسبت شوہر کی طر ف کرنا


کیا فرماتے ہیں علمائےکرام ومفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ نکاح کے بعد عورت اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے؟ بعض لوگ اس کو حرام سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ولدیت تبدیل کرنا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔

جواب:  عورت کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی انسان کااپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں۔ لہٰذا، ہم ذیل میں دونوں مسائل پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت  کھل کر سامنے آجائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِۚ فَاِنۡ لَّمْ تَعْلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمْ فَاِخْوٰنُکُمْ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوٰلِیۡکُمْؕ(سورۃالاحزاب: ۵)

ترجمہ کنزالایمان: ’’اُنھیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے پھر اگر تمھیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں  تو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔‘‘

آیتِ مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اُن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اور احادیثِ مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اﷲاور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(السنن ابن ماجۃ : رقم: 2609(

قرآن وحدیث کے مذکورۂ بالا دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطورِ والد کرنا حرام ہے، جب کہ ولدیت تبدیل کیے بغیر  ایک خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت یا ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً پاکستانی، دمشقی، سنی، حنفی، نقش بندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں، لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی طرح  عورت بھی  اپنی نسبت اپنے شوہر کی طرف کرے  تو  اس میں کوئی حرج نہیں اور اس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیۡنِ مِنْ عِبَادِنَا صٰلِحَیۡنِ(سورۃالتحريم: ۱۰)

ترجمہ کنز الایمان: ’’اللہ کافروں کی مثال دیتا ہے نوح کی عورت اور لوط کی عورت وہ ہمارے بندوں میں دو سزاوارِ قرب بندوں کے نکاح میں تھیں۔‘‘

مذکورۂ بالا آیتِ مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے اور درجِ ذیل آیتِ مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے۔

اور حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ ابن مسعود﷜کی اہلیۂ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(ﷺ)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کون سی زینب؟ عرض کی گئی:اِمْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ. یعنی حضرت ابنِ مسعود ﷜ کی بیوی ہیں۔(الصحيح البخاري:رقم الحدیث : 1393)

اس موقع پر حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اﷲ ابنِ مسعود ﷜ کی طرف کی گئی لیکن آپ ﷺ نے منع نہیں فرمایا کیوں کہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔

لہٰذا، عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ اوپر ذکرکردہ دلائل سے  ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جب کہ کوئی  عورت  اپنی پہچان کے لیے اپنی نسبت  اپنے شوہر کی طرف کرسکتی ہے۔ کیوں کہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جب کہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔

واللہ تعالٰی اعلم ورسولہ اعلم۔

کتبہ: مفتی سیف اللہ باروی        مصدّقہ: مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi