زخمی شام


کلام:سلمان فؔریدی

برقِ ستم سے ہیں گُل و گُلزار، اشک بار

 

ہے خاکِ شام، زخمی و لاچار اشک بار

 

اُس درد سے تڑپتا ہے سارا جہانِ حق

 

ہےرنج وغم سے ہر دلِ خوددار، اشک بار

 

طاری ہےشامیوں پہ، سِتم پرسِتم کی آگ

 

ہم، تَک رہےہیں بے بس و ناچار، اشک بار

 

اپنا ہی گھر اُجڑتے ہوئے دیکھتے رہے

 

افسوس، کچھ نہ کرسکے مِعمار، اشک بار

 

منظروہ ہم نے دیکھے ہیں پی کر لہو کے گُھونٹ

 

دشتِ بلا ہے، قوم ہے بے یار، اشک بار

 

مسلِم کی اِس تباہی میں شامل ہے نجدیت

 

ہیں اِس دغا سے دین کے غم خوار، اشک بار

 

اہلِ شعور دیکھیں یہ، اور فیصلہ کریں

 

غدّار ہنس رہے ہیں، وفا دار، اشک بار

 

عیّاش حکمرانِ عرب، سب خموش ہیں

 

صد حیف، شانِ قوم ہے مِسمار، اشک بار

 

لُٹتے ہی جا رہے ہیں مسلماں کے قافلے

 

پھربھی نہیں ہیں قوم کے سردار، اشک بار

 

مَندِر بنا رہی ہے عرب میں وہابیت

 

ہیں اُس زمیں کےمسجد و مینار، اشک بار

 

اب ایک استعارۂ غم بن گیا ہے ’’شام‘‘

 

ہےوہ زمیں شِکستہ وخوں بار، اشک بار

 

جس کے بہادروں پہ شجاعت بھی ہے فدا

 

ہے اب وہ آشیانۂ اَحرار اشک بار

 

پھیلی جہاں سے علم کی دولت زمانے میں

 

وہ مخزنِ ہنر، ہوا نادار، اشک بار

 

تازہ مَسل دیے گئے گُلہائے زندگی

 

ہیں ڈالیاں اُداس تو اَشجار، اشک بار

 

امّید کی نظر ہے تِری سمت یا رسول!

طوفاں ہےسخت، اور ہے پتوار اشک بار

 

امّت کی خستہ حالی پہ چشمِ کرم حضور

 

ہے آپ سے مدد کی طلب گار، اشک بار

 

اُس سر زمیں پہ حشرسے پہلے ہی حشر ہے

 

اربابِ حق ہیں در غم و آزار، اشک بار

 

پامال ہو رہے ہیں وہاں کے تبرکات

 

سچوں کی ہیں علامت و آثار، اشک بار

 

تصویرکِھنچ نہ پائےگی اُس درد وکرب کی

 

ہیں فرطِ غم سے خامہ و افکار، اشک بار

 

شکوےبُھلاکے، ہم سبھی ہوجائیں متحد

 

ورنہ رہیں گے ایسے ہی ہم خوار اشک بار

 

تحریرمیں چُھپے ہیں جفا کے ہزار درد

 

اِس داستانِ غم سے ہیں اَشعار، اشک بار

 

کمزوری کےنہیں ہیں، یہ غیرت کے آنسو ہیں

 

دشمن کو اے فؔریدی! تو للکار، اشک بار

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi