وقت کے قدرداں


اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں پر کثیر نعمتیں نازل فرمائیں، جن کا شمار و احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی تیسری طاقت و قوت نہ اس کا شمار کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کی حقیقت کا ادراک کر سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی یہ بے شمار نعمتیں مسلسل اس کے بندوں کو حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے: وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعْمَتَ اللہِ لَاتُحْصُوۡہَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ﴿٪۳۴﴾ (سورۂ ابراہیم، آیت34) ترجمہ: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کر سکو گے۔ بے شک آدمی بڑا ظالم، بڑا نا شکرا ہے ۔ (کنز الایمان) پیش کش: مشاہد رضوی ڈاٹ ان ٹیم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت ہی عظیم نعمت ’’وقت‘‘ ہے۔ وقت کی اہمیت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ ایک قیمتی متاع ہے اور اس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبے میں مسلّم ہے، چاہے وہ کاروبار ہو ، تعلیم و تعلم ہو، سفر و حضر ہو، عبادات و معاملات ہوں۔ الغرض کوئی بھی شعبہ ہو۔ موجودہ مصروف ترین اور سائنسی دور میں اس کی اہمیت کے پیشِ نظر نئی نئی ایجادات وجود میں آرہی ہیں جن کا بنیادی مقصد آسان، ترقی، کامیابی اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہے۔ کیوں کہ ہر دانش مند اور ترقی پسند شخص اپنے وقت کا اچھا استعمال کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جن کا وقت دین اور دنیا کے کسی بھی کام میں صرف نہیں ہوتا اور وہ ہر وقت کاہلی اور سستی کا شکار نظر آتے ہیں اور وقت کی اہمیت سے لا پرواہ ہیں۔ یقیناً عقل مند آدمی وہی ہے جو اپنے وقت کو اہمیت دے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ وقت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے سرکارِ دو عالمﷺ کا یہ فرمانِ مباک بہت اہمیت کا حامل ہے، جو حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریمﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﺍﻏﺘﻨﻢ ﺧﻤﺴﺎ ﻗﺒﻞ ﺧﻤﺲ: ﺷﺒﺎﺑﮏ ﻗﺒﻞ ھرﻣﮏ، وﺻﺤﺘﮏ ﻗﺒﻞ ﺳﻘﻤﮏ وغناک ﻗﺒﻞ ﻓﻘرک، و ﻓﺮﺍﻏﮏ ﻗﺒﻞ ﺷﻐﻠﮏ، وﺣﯿﺎﺗﮏ ﻗﺒﻞ ﻣﻮﺗﮏ۔ یعنی پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: 1۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے 2۔ صحت کو بیماری سے پہلے 3۔ مال داری کو تنگ دستی سے پہلے 4۔ فراغت کو مشغولیت سے پہلے 5۔ زندگی کو موت سے پہلے۔(ﺷﻌﺐ ﺍﻻﯾﻤﺎﻥ، ﻓﻌﻞ فی ما ﯾﻘﻮﻝ ﺍﻟﻌﺎﻃﺲ ﺍﻟﺦ، ﺣﺪﯾﺚ 9884) یہ حدیث علم و عمل، عبادت و ریاضت، بلکہ دنیا و آخرت کے کثیر امور کو جامع ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جن نامور شخصیات کا ہم ذکرِ خیر کرتےہیں ان کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک نمایاں خوبی اور وصف ’’وقت کا اچھا استعمال‘‘ بھی ہے۔ بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالٰی وقت کو کس قدر اہمیت دیا کرتے تھے اس کا اندازہ ذیل کے واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے: 1۔ حافظ ابنِ عساکر ’’تبیین کذب المفتری‘‘ میں فرماتے ہیں: (پانچویں صدی کے مشہور بزرگ) حضرت سیّدنا سلیم رازی علیہ الرحمۃ کا قلم جب لکھتے لکھتے گھس جاتا تو قط لگاتے (یعنی نوک تراشتے) اگر چہ دینی تحریر کے لیے یہ بھی ثواب کا کام ہے مگر ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ کے مصداق ذکر اللہ عَزَّوَجَلَّ شروع کردیتے تاکہ یہ وقت صرف قط لگاتے ہوئے بھی صرف نہ ہو۔ 2۔ علامہ عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: جب میں اپنے استاد صاحب سے کوئی کتاب پڑھتا تو بعض اوقات کتاب کا کوئی لفظ درست کرنے کے لیے درمیان میں کچھ وقفہ ہوجاتا۔ آپ علیہ الرحمۃ اس وقفے کو بھی ضائع نہ فرماتے اور اس وقفے میں بھی آہستہ آہستہ سے ’’اللہ اللہ‘‘ کے ذکر میں مشغول ہوجاتے۔ وقت کی اسی قدر شناسی کا نتیجہ تھا کہ اُن استاد صاحب نے چالیس سے زائد عظیم الشان تالیفات چھوڑی ہیں۔ (علم و علما کی اہمیت، ص17) 3۔ عظیم مفسر ِقرآن حضرت علامہ شہاب الدین محمود آلوسی علیہ رحمۃ القوی نے اپنی رات کے اوقات کو تین حصّوں میں تقسیم کیا ہوا تھا: پہلے حصّے میں آرام و استراحت فرماتے، دوسرے حصّے میں اللہ تبارک وتعالٰی کی عبادت کیا کرتے اور تیسرے حصّے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے اور وہ رات کے پچھلے پہر میں اتنا کچھ لکھ لیا کرتے جسے اُن کے کاتب سارا سارا دن لکھتے (نقل کرتے) رہتے تھے۔ (وقت کا بہتر استعمال، ص33) 4۔ کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا سراج الامّۃ امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے اوقات کی ایسی قدر فرمایا کرتے کہ سارا دن تعلیم و تدریس میں گزارتے باہر سے آنے والے مسائل کا جواب لکھتے، بالمشافہ مسائل پوچھنے والوں کی رہنمائی فرماتے، مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں شرکت کرتے، فقرا اور مساکین کی خدمت کرتے، رشتے داروں کی خبر گیری کرتے، رات عبادت میں گزارتے اور قرآنِ مجید کی بہترین انداز میں تلاوت فرماتے۔ یہی معمولات زندگی بھر رہے۔ یہاں تک کہ آپ علیہ الرحمۃ نے وصال فرمایا۔ حضرت عبدالمجید بن ادوار علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے دیکھا کہ آپ (امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے متواتر دس دن اور دس راتیں عبادت، تعلیم و تدریس میں گزاردیے۔ نہ انہوں نے نیند کی، نہ فارغ وقت بیٹھے، بس نماز، طواف اور فقہ کی تعلیم میں مشغول رہے۔(مناقبِ امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ، ص209) 5۔ حضرت محمد بن حسن شیبانی بغدادی علیہ الرحمۃ (المتوفّٰی 189ھ) حضرت سیّدنا امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تلمیذِ رشید، امام، فقیہ، محدث، مجتہد فی المذہب تھے۔ رات میں بہت کم سویا کرتے تھے۔ اپنے پاس چند کتابیں رکھتے۔ ایک فن کی کتاب سے اکتاہٹ ہوتی تودوسرے فن کی کتاب دیکھنے لگتے۔ اپنی نیند کو پانی سے دور کرتے اور فرماتے ’’نیند حرارت ہے۔‘‘(علما کی نظر میں وقت کی اہمیت، ص19) 6۔ جمال الدین ابو الفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد المعروف علامہ ابن جوزی علیہ الرحمۃ (المتوفّٰی597ھ) اپنی زندگی کے اوقات کو فضولیات سے بچانے کے متعلق خود اپنے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ میں کبھی بچوں کے ساتھ راستے میں زور سے ہنستا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ میں چھ سال کی عمر میں مکتب میں داخل ہوا۔ سات سال کی عمر تھی کہ میں جامع مسجد کے سامنے میدان میں چلا جایا کرتا تھا، وہاں کسی مداری یا شعبدہ باز کے حلقے میں کھڑا ہونے کے بجائے محدث کے درسِ حدیث میں شریک ہوتا۔ وہ حدیث، سیرت کی جو بات بھی بیان کرتے، وہ مجھے زبانی یاد ہوجاتی۔ گھر آ کر اس کو لکھ لیا کرتا۔ دوسرے لڑکے دریائے دجلہ کے کنارے کھیلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور تنہا بیٹھ کر مطالعے میں مشغول ہوجاتا اور میں اساتذہ و شیوخ کے حلقوں میں پہنچنے کے لیے اس قدر جلدی کرتا کہ دوڑنے کی وجہ سے میری سانس پھولنے لگتی تھی۔ صبح و شام اس طرح گزرتے کہ کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو عجیب چیز ہے لذّتِ آشنائی (علم و علما کی اہمیت، ص28) 7۔ سیّدنا محمد بن ادریس المعروف امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں: میں ایک مدّت تک اہل اللہ کی صحبت سے فیض یاب رہا۔ ان کی صحبت سے مجھے دو اہم باتیں سیکھنے کو ملیں: ۱۔ وقت تلوار کی طرح ہے، تم اس کو (نیک اعمال کے ذریعے) کاٹو ورنہ (فضولیات میں مشغول کر کے) تم کو کاٹ دے گا۔ ۲۔ اپنے نفس کی حفاظت کرو اگر تم نے اس کو اچھے کام میں مشغول نہ رکھا تو یہ تم کو کسی برے کام میں مشغول کردے گا۔ 8۔ امام رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! کھانا کھاتے وقت علمی مشغلہ (تحریری یا مطالعہ) ترک ہوجانے کا مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ وقت نہایت ہی قیمتی دولت ہے۔ 9۔ آٹھوی صدی کے مشہور شافعی عالم سیّد شمس الدین اصفہانی قدس سرہ النورانی کے بارے میں حافظ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: آپ علیہ الرحمۃاس خوف سے کھانا کم تناول فرماتے تھے کہ زیادہ کھانے سے بول و براز کی ضرورت بڑھے گی اور بار بار بیت الخلا جاکر وقت صرف ہوگا۔ 10۔ حضرت علامہ ذہبی علیہ الرحمۃ ’’تذکرۃ الحفّاظ‘‘، میں علامہ خطیب بغدادی علیہ الرحمۃ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: آپ علیہ الرحمۃ راہ چلتے بھی مطالعہ جاری رکھتے (تاکہ آنے جانے کا وقت بے کار نہ گزرے) ۔ 11۔ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ وقتِ نزع قرآنِ کریم پڑھ رہے تھے۔ ان سے استفسار کیا گیا کہ اس وقت میں بھی تلاوت، ارشاد فرمایا: میرا نامۂ اعمال لپیٹا جارہا ہے تو جلدی جلدی اس میں اضافہ کر رہا ہوں۔ (انمو ل ہیرے، ص 18-19) 12۔ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مجددِ دین و ملّت، سنیّوں کی شان و پہچان امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کو آنکھ کا ایک مرض لاحق ہوا۔ آپ علیہ الرحمۃ کے استادِ محترم جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب علیہ الرحمۃ نے آپ سے اصرار فرمایا کہ اسے (ڈاکٹر کو) آنکھ دکھائی جائے، علاج کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار ہے۔ چناں چہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت علیہ الرحمۃ نے اپنے استاد کی بات کا مان رکھتے ہوئے ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر نے اندھیرے کمرے میں صرف آنکھ پر روشنی ڈال کر آلات سے بہت دیر تک بغور دیکھا اور پھر کہا کہ کثرتِ کتب بینی سے کچھ بیوست آگئی ہے، پندرہ دن کتاب نہ دیکھیے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں (پندرہ دن تو دور کی بات ہے) مجھ سے پندرہ گھڑی بھی کتاب نہ چھوٹ سکی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، جلدِ اوّل، ص128) غور فرمائیں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ مطالعۂ وقت کو کس قدر اہمیت دیتے کہ باوجود بیماری و مرض کے کتب بینی کو جاری رکھا اور وقت بے کار نہ جانے دیا۔ 13۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مصنّفِ بہار شریعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃاپنے اوقات کی اس طرح حفاظت فرمایا کرتے کہ جیسا کہ آپ علیہ الرحمۃکا معمول تھا کہ صبح کے وقت نماد ادا فرماتے۔ جماعت آپ ہی کی اقتدا میں ہوتی۔ نمازِ فجر سے فراغت کے بعد آپ طلوعِ آفتاب کے وقت نمازِ اشراق تک تلاوتِ قرآن فرماتے پھر نمازِ اشراق ادا کر کے ’’مدرسہ‘‘ تشریف لے جاتے۔ مدرسے کے تمام اوقات میں ہر گھنٹے میں درس دیتے تھے۔ کوئی گھنٹہ اپنا خالی نہ رکھتے تھے۔ درس سے فارغ ہوکر آپ علیہ الرحمۃ گھر تشریف لے جاتے۔ دوپہر کھانا تناول فرماتے، قیلولہ اور نمازِ ظہر کے لیے مسجد میں حاضر ہوتے۔ بعد ِظہر آپ دارالمطالعہ میں تشریف رکھتے اور وہاں بہارِ شریعت کی تصنیف کا سلسلہ جاری رہتا۔ نمازِ عصر کے بعد دار الاقامہ کے وسیع و عریض صحن میں تشریف فرماہوتے۔ وہاں طلبا اپنے کچھ علمی مسائل حل کرلیتے اور کبھی بستی سے کچھ عقیدت مند حاضر ہوجاتے اور ان سے ’’ادخال السرور علی اخیہ المسلم‘‘ کے مطابق ان میں فرحت و انبساط اور ماحضر تناول فرما کر نمازِ عشا کے لیے مسجد تشریف لے جاتے۔ نمازِ عشا سے فراغت کے بعد آپ پھر اپنے دار المطالعہ میں تشریف فرما ہوتے اور وہاں سے بالعموم بارہ بجے شب سے قبل نہ اٹھتے۔ جب آپ علیہ الرحمۃ مکان تشریف لے جاتے، طلبہ پر نظر رکھتے کہ کون مطالعہ کر رہا ہے اور کون خوابِ استراحت میں ہے۔ اس کے مطابق طلبا کی ہمت افزائی اور زجرو توبیخ ہوتی تھی۔ گرمیوں میں بعدِ نمازِ عصر بعض اوقات دولت باغ تفریح کے لیے جاتے جو آپ کے گھر سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر تھا (اس لیے کہ ڈاکٹروں اور حکیموں نے نصیحت اور جسم کی توانائی کےلیے اس کا مشورہ دیا تھا) لیکن یہ تفریح بھی برائے نام تھی۔ حضرت شیخ الحدیث محدثِ اعظمِ پاکستان مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ (دورِ طالب علمی میں آپ کے ہمرکاب ہوتے اور اسباق کا سلسلہ جاری رہتا۔ (کامیاب استاد، ص 232-233) 14۔ حضور محدثِ اعظم علیہ الرحمۃ کی سلامت روی، دین داری اور ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ چند لمحات کے لیے بھی اپنا کوئی وقت بے کار نہیں گزارنا چاہتے تھے۔ چند منٹ اگر کوئی اور بات میں مشغول کرلیتا تو پریشان ہوجاتے اور فرماتے۔ بھئی بہت وقت ضائع ہوگیا۔ ایک دفعہ ایسے موقع پر کسی نے کہا تھا کہ آپ کے ہاں تھوڑی دیر جو بہت وقت قرار پاتا ہے تو گھنٹہ کتنی دیر کا ہوتا ہے؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے مسکراکر فرمایا: 15منٹ کا گھنٹہ سمجھ لیجیے۔ یہ بہت ہے۔ پنج گانہ نماز کے لیے مسجد میں جاکر کبھی جماعت میں تاخیر پاتے تو وظیفہ پڑھتے رہتے یا کتاب کے مضامین پر غور کرتے رہتے اور اتنی عبارتیں یاد تھیں کہ لوگوں نے ان کا نام ’’کتب خانہ‘‘ رکھ دیا تھا ۔(محدثِ اعظمِ پاکستان) 15۔ حضور حافظِ ملّت شاہ عبدالعزیز مبارک پوری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ تضیعِ اوقات (یعنی وقت کو ضائع کرنا) سب سے بڑی محرومی ہے۔(حافظِ ملّت، 53) حضور حافظِ ملّت علیہ الرحمۃ کے ایک شاگرد بیان کرتے ہیں: حضور حافظِ ملّت سارا دن تو مصروف ہوتے اور عصر سے مغرب جو خالص تفریح کا وقت تھا، وہ بھی جوابی تقریروں کے لیے مخصوص ہوگیا۔ ہم چند منتہی طلبا تفریح میں حضرت کے ساتھ ہوجاتے اور راستے میں چلتے ہوئے حضرت کو شبِ گزشتہ ہونے والے حزبِ مخالف کے جلسے کی رپورٹ اور مدّت بیان کرتے۔ آپ علیہ الرحمۃ اسی وقت بر جستہ ان کے اعتراضات کے جوابات مرحمت فرماتے اور ہمارے درمیان اس دن کے جلسے کےلیے ایک موضوع بھی تقسیم فرمادیتے۔ ان چھ مہینوں کی مدّت میں حضرت حافظِ ملّت کے علمی تبحر، فکر و بصیرت کی گہرائی اور ان کے خلوص اور استقلال کا قوم نے جتنا سخت امتحان لیا، اس دور میں مشکل ہی سے اس کی مثال ملتی ہے۔ شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: حافظِ ملّت علیہ الرحمۃ کی شفقت کی وجہ سے میں کبھی کبھی حضرت کی قیام گاہ پر حاضر ہوتا اور خدمت کا یہ و قت بھی حضور حافظِ ملّت علیہ الرحمۃ ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کبھی تدریس کے متعلق سوال کرتے، کبھی مخالفینِ اہلِ سنّت کے اعتراضات کے جوابات بتاتے۔ (کامیاب استاد، ص 238-297) 16۔ غزالیِ زماں، رازیِ دوراں حضرت احمد سعید کاظمی علیہ الرحمۃ درسِ حدیث سے فارغ ہوئے تو کچھ طلبا فارغ نظر آئے۔ آپ علیہ الرحمۃ یہ برداشت نہیں کرتے تھے کہ طلبا وقت ضائع کریں۔ طلبہ عرض کرتے: حضور فلاں مدرّس صاحب آج تشریف نہیں لائے، اس لیے فارغ ہیں۔ حضور غزالیِ زماں فرماتے: کون سی کتاب ہے؟ طلبا عرض کرتے ’’بیضاوی شریف‘‘ ہے۔ حضور غزالیِ زماں ان سب کو بلاتے اور فرماتے: کہاں سے پڑھنا ہے؟ شروع کرو۔ الغرض آپ کو وقت کا ضائع و بے کار گزرنا بالکل پسند نہ تھا اور اپنے طلبا کو بھی وقت کی اہمیت کا احساس دلاتے۔ مذکورہ تمام واقعات میں ایک امر مشترک ہے کہ ہمارے اکابر و بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالٰی وقت کے قدر دان تھے۔ اپنے وقت کا بہتر سے بہتر استعمال کرتے اور وقت کے ضائع کرنے کو نا پسند کرتے۔ اگر غور کیا جائے تو دنیا کی نامور کامیاب شخصیات جن کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے، ان کے اوصاف میں سے ایک وصف وقت کی قدردانی کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ منقول ہے کہ کامیابی کے تین اصول ہیں: 1۔ کم کھانا 2۔ کم بولنا 3۔ کم سونا ان تینوں باتوں پر عمل کا بنیادی فائدہ اپنے وقت کو فضولیات سے بچاتے ہوئے اس کا بہتر استعمال کرنا ہے۔ 3۔ لہٰذا جو ترقی و کامیابی کا خواہش مند ہو، اسے چاہیے کہ اپنے وقت کو فضول و بے کار کاموں سے بچائے اور اسے نیک، جائز اور اچھے امور میں صرف کرے۔ حضور حافظِ ملّت شاہ عبدالعزیز مبارک پوری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: وقت کو کسی نہ کسی کام میں لگاؤ، خواہ وہ کام دنیا کا ہو یا دین کا۔ (حافظِ ملّت، ص 104) دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے شرمِ نبی، خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں (حدائقِ بخشش) ٭٭٭ ٭٭٭

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi